2019 کے عام انتخابات جمہوریت کو بچانے کے لیے کیوں فیصلہ کن ہیں؟

ڈاکٹرمحسن عتیق خان

 (مدیر عربی میگزین ’’اقلام الہند‘‘ و بانی ’’امیٹھی ٹائمس‘‘)

۲۰۱۹ کے عام انتخابات کا آغاز ہوچکا ہے، ہر امیدوارکی انتخابات کو جیتنے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ دامے،درمے،قدمے،سخنے ہر طرح سے لوگوں کو لبھانے کی سعی جاری ہے۔ اور خفیہ خریدوفروخت کا سلسلہ اپنی انتہاں کو پہنچ گیا ہے۔ اور اس میں مسلمان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ مسلم نیتابھی بغیر اس الیکشن کی سنگینی کا اندازہ کئے بکنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر امیٹھی کو ہی لے لیجئے،  کئی پرانے مسلم کا نگریسی گھرانے بی جے پی کی جھولی میں جا گرے۔

۲۰۱۹کے یہ عام انتخابات پچھلے عام پارلیمانی انتخابات سے کئی معنوں میں مختلف ہیں اور اس لحاظ سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں کہ مستقبل میں ہندوستان کی موجودہ جمہوری شکل باقی رہے گی یا نہیں اسکا دارومدار اس ا لیکشن کے نتائج پربہت حدتک منحصر ہے۔

        یہ الیکشن پہلے کی طرح سیاسی پارٹیوں کے بیچ ٹکرائو کا الیکشن نہیں ہے،بلکہ تمام پارٹیوں کا ایک ایسی انتہا پسنداورفسطائی سوچ رکھنے والی ہندوستان کی سب سے مضبوط تنظیم کے ساتھ مقابلہ ہے جو ہندوستان  کو اپنی فکر کے سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہے۔ اوراپنے اس خواب کو عملی جامہ پہناناچاہتی ہے جو اس نے آزادی کے پہلے دن سے ہی دیکھنا شروع کردیا تھا،  اور جس کا مقصد ہندوستان کے تمام شہریوں کے حقوق کو پامال کرکے صر ف ایک خاص طبقے کی مفادات کی حفاظت اور برتری کو قائم رکھنا ہے۔

        اس فکر کی سیاسی طور پر نمائندگی کرنے والی جماعت بی جے پی دو ہزار مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کی سربراہی میں اور اچھے دنوں اور وکا س کے وعدے کے بل پر اقتدار تک پہونچی مگر نہ اسنے کوئی وعدہ وفا کیااور نہ ہی اچھے دنوں کی کوئی جھلک دکھائی البتہ برے دنوں سے ضرور لوگوں کا پالا پڑگیا۔

        لوگ پندرہ لاکھ کا انتظار کرتے رہ گئے، وکاس سین سے غائب ہوگیا،نوٹ بندی نے ہزاروں لوگوں کو بھوکے پیٹ سونے پر مجبور کیا اور سوسے زائد لوگ اپنی جانیں گنوابیٹھے۔ جی ایس ٹی نے چھوٹی موٹی تجارت کرنے والے کے پیٹ پر لات مار دی اور وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے۔ کئی  بڑے بزنیس مین پبلک  بنکوں سے اربوں روپئے اڑاکر ودیش جا بسے، بلیک منی کو باہر سے لانے کا وعدہ تو نہ پورا ہوا البتہ اس میں بر آمدگی جاری رہی اور سویزرلینڈ کے بینکوں میں ہندوستانیوں کی بلیک منی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا،ماب لنیجنگ کے کیس جگہ جگہ رونما ہوئے اور سینکڑوں جانیں ہجونی تشدد کی نذر ہوگئیں،  اور مجرمین کی نہ صرف پردہ پوشی کی گئی بلکہ حکومت کے ذمہ داروں کی طرف سے انھیں پھولوں کا ہار پہناکر انکی ہمت افزائی کی گئی تاکہ اس طرح کی گھنونی حرکتیں رکیں نہیں بلکہ بڑھتی جائیں،  اور کروس ایف آئی آر(Cross FIR)کرکے مقتولیتن کے لواحقین کو مقدمے واپس لینے پر مجبور کیا گیا جس سے مظلومین کی روحیں تڑپتی رہ گئیں۔ نفرتوں کی تجارت کا ایسا عروج ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دوست دشمن نظر آنے لگے اور لبوں پر مسکراہٹ سجا کر ملنے والے نہ صرف اپنے دلوں میں بغض وکینہ رکھنے لگے بلکہ زبانوں سے بر ملااس کااظہار بھی کرنے لگے۔ دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ جاری رہا اور مادر وطن کے سیکڑوں سپوت جا ں بحق ہوگئے حتٰی کہ ایک فوجی کو الیکشن لڑنے پر مجبور ہونا پڑااور وہ بھی نریندرمودی کے خلاف۔

        اپنی انتہا پسندانہ فکر سے ذرا الگ ہٹ کر سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نارے کے ساتھ حکومت کی شروعات کرنے والی جماعت جلد ہی اپنے ایجینڈے پر واپس آگئی اور ہزارہاسال سے کمزوروں کا استحصال کرنے والی اونچی ذاتوں کو ہی ریز رویشن دے ڈالا۔ نوکریوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ پکوڑے اور سموسے بیچنے کو بھی روزگار سے تعبیر کیا گیا،  ایجینڈے کے پروپیگنڈے کیلئے جمہوریت کا چوتھا ستوں مانے جانے والی میڈیا کو اس بری طرح استعمال کیا کہ وہ اپنا وقار کھو بیٹھی اور لوگوں کا اس پر سے اعتبار اٹھ گیا اور مجبوراًکئی بڑی ہستیو ں کو میڈیا کو خیرآباد کہنا پڑا یونیورسٹیوں کی فیس میں کئی گنا اضافہ کیا گیا تاکہ وہ عام آدمی کی پہونچ سے باہر ہوجائے اور صرف ایک مخصوص طبقے کا امتیاز بن کر رہ جائے۔روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں خوب اضافہ ہوا اور چولہا گیس کی قیمت دوگنی ہوگئی،  مختلف سرکاری اداروں کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کی کوشش کی گئی اور اسکے لئے ہر طرح کے حربے اپنائے گئے       عدلیہ پر اس طرح حاوی ہونے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے چار ججوں کو پریس کانفرینس کرکے لوگوں سے جمہوریت اور عدلیہ کو بچانے کی اپیل کرنی پڑی۔ سی بی آئی کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کیا گیا کہ اسکا وقار جاتا رہا اور کئی صوبوں نے اپنے یہاں اس مرکزی جانچ ایجنسی کے عمل دخل پر پابندی لگا دی،  الیکشن کمیشن کو اس طرح استعمال کیا گیا کہ ہندوستان میں صاف و شفاف الیکشن کے ہونے پر سوال کھڑے ہونے لگے اور ای وی ایم کا استعما ل لوگوں کی نظروں میں مشکوک ہوگیا اور اس کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کی مانگ ہونے لگی بہر حال پچھلے پانچ سال اقتدار میں رہتے ہوئے اس فکر کی حاملین نے جس طرح سے جمہوری اقدار کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور مختلف جمہوری شعبو ں کو جس طرح سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی ہے اسکی مثال آزاد ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اور اگر اس الیکشن کے بعد وہ پھر سے اقتدار کی کرسی تک پہونچتے ہیں تو ان کی سب سے پہلی کوشش ہوگی          کہ آئین ہندمیں تبدیلی کی جائے، اور انکی راہ آسان اس لئے ہوگی کیونکہ ہر شعبے میں انکے    ہم فکر افراد موجود ہیں۔

         آئین کی تبدیلی کرتے وقت سب سے پہلا حملہ اقلیتوں کے حقوق پر ہوگا۔دستور ہند نے تمام ہندوستانی شہریوں کو مساویانہ حقوق عطا کئے ہیں اور ہر ایک کے مذہبی امتیازات اور ضرورتوں کا خیال رکھا ہے اور ہر ایک کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے اور اس پر عمل کرنے کی پوری آزادی دی ہے۔ جب اقلیتوں کے حقوق ختم کردئے جائیں گے تو انکے لئے سپریم کورٹ کے دروازے بھی بند ہوجائیں گے۔ اور یاد رہے کہ اقلیتوں کے حقوق ختم کرنے کا مطلب اقلیتوں کے وجود سے انکار ہے تو پھر ہٹلر کی طرح  اقلیتوں کے لئے کنسنٹریشن کیمپ ( Concentration Camp) بنانے سے کون روک سکتا ہے، اور اسکے واضح اشار ے حال کی انتخابی تقریروں میں مل چکے ہیں۔

        اس الیکشن میں انسانی حقوق و اقدار،  اور ہندوستان کے موجودہ جمہوری نظام میں یقین رکھنے والوں اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر،  بڑی احتیاط اور انتہائی ہوش مندی کے ساتھ اپنی رائے،  دہندگی کے حق کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمینٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی یا دوسری طرح کے جھانسے میں آنے کے بجائے بغیرتفریقِ مذہب و ملت ایسے افراد کو چننے کی ضرورت ہے جو موجودہ جمہوری نظام میں یقین رکھتے ہوں،  اور اسکو بچانے کیلئے کوشاں اور اسکی حفاظت کیلئے کمر بستہ ہوں خواہ کسی بھی مذہب سے ہوں یا کسی بھی پارٹی سے ہوں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔