یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری

نثار احمد

۱۹۴۸ ؁ میں مولانا آزاد نے دہلی کی مشہور جامع مسجد سے خطاب کرتے ہوے مسلمانوں سے کہا تھا’’عہد کرو آج سے یہ ملک تمہارا ہے، اس کے بنانے اور سنوارنے میں تمہارا بھی کردار ہوگا‘‘۔،آج آزادی کے ستر سال ہوگئے، اس طویل مدت کے باوجود مسلمان آج کہاں کھڑے ہیں ہم اور آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں، ان ستر سالوں میں مسلمانوں کی جو دردشا ہوئی ہے وہ کسی سے چھپی نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہے، آج حالت یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں مسلمان نچلی پائدا ن پر ہیں، آخر مسلمانوں کی اس حالت زار کا ذمہ دار کون ہے ؟کیا ہم یہ کہ کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہو سکتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ اپنایا گیا ؟کیا ہم صرف یہ کہ کر بری الذمہ ہوسکتے ہیں کہ ہمیں تحصیل علوم و فنون کے یکساں مواقع نہیں ملے؟ یہ سچ ہے کہ آج مسلمانوں میں تعلیم کی شرح سب سے کم ہے، مسلمانوں کی بڑی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اگریہ سچ ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں ؟ اور اسکا تدارک کیسے ممکن ہے ؟ اگر میں اس کی توجیہہ کروں تو  یقینا میں کہونگا کہ مسلمانون میں ہمیشہ سے سیاسی قیادت کا فقدان رہا ہے، جب تک مسلمانوں کو انکی آبادی کے حساب سے سیاست میں حصہ داری نہیں ملے گی تب تک ان مسئلوں کا حل ممکن نہیں ہے، جمہوری سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری ہوگی تبھی

اگر آپ ہندستان کی سیاسی تاریخ سے واقف ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اب تک ہوئے سولہ انتخا بات میں مسلمانوں کا تناسب سب سے کم رہا ہے، دسوے عام انتخاب میں سب سے زیادہ ۴۹مسلم ممبر پارلیمنٹ منتخب ہو کر آئے تھے جب کانگریس نے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی زمین پر پھر سے قبضہ کر لیا تھا، تب تک مسلم لیگی ہونے کا ٹھپہ مسلمانوں کی پیشانی سے پوری طرح سے مٹ چکا تھا اور ہندتوا وادی طاقتیں اندرون خانہ سگبگا رہی تھیں اور جنتا پارٹی کی شکل میں ایک سیاسی متبادل کو لوگ دیکھ رہے تھے، یہیں سے جمہوری سیاست میں ذات پات کا نظام قائم ہوا، اور کئی انقلابی رہنمائوں کا جنم ہوا، جنکے ہم نوائوں نے بعد میں علاقائی پارٹی بنا کر اپنی قوم کو ہندوستانی سیاست مین راستہ دکھا یا، راشٹریہ جنتا دل، جنتا دل یونائٹید، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور جنتا دل سیکولر جیسی پارٹیا ں اسی عہد کی پیداوار ہیں۔، ۸۰ کی دہائی میں ایک اور پارٹی کا جنم ہوا جسے بھارتیہ جنتا پارٹی کا نام دیا گیا، یہ  پارٹی در اصل بھارتیہ جن سنگھ کی تشکیل نو تھی  جسے ۱۹۵۱ ؁  میں شیاما پرساد مکھرجی نے قائم کیا تھا۔ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی کئی پارٹیاں تشکیل پا رہی تھیں، جس خطے میں جنکی زیادہ آبادی تھی اسی لحاظ سے وہاں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں پنپ رہی تھیں۔ شیو سینا، ڈی  ایم  کے، اے  آئی  اے  ڈی  ایم  کے،شرومنی اکالی دل  اور جنتا دل  بیجو  جیسی پارٹیاں ان میں شامل تھیں، ان میں سے بیشترسیاسی جماعتوں نے قومی سطح پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا، ریاست اور مرکزی حکومت میں انکی شمولیت ہونے لگی لیکن ان تمام سیاسی دائو پیچ میں مسلم لیڈر شپ کو پوری طرح سے نظر انداز کردیا گیا جسکی فکر نہ تو ہمارے حکمرانوں کو تھی اور نہ ہی ہمارے ملی بہی خواہوں کو۔ آج حالات یہ ہیں کہ پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی بیحد کم رہ گئی ہے۔ سولہویں لوک سبھا کے تناظر میں  اگر ہم دیکھیں  تو جمو کشمیر کو چھوڑ کر سب سے زیادہ مسلم آبادی تقریبا ۳۰ فیصد آسام میں ہے جہاں سے چودہ سیٹوں میں سے صرف دو سیٹوں پر مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے، یوپی میں تقریبا ۱۹  فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے جہاں ۸۰  میں سے صرف سات سیٹوں پر مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے، کیرالہ میں چوبیس فیصد مسلم آبادی ہے، وہاں سے صرف تین مسلم امیدوار منتخب ہوکر آئے، سب سے زیادہ مغربی بنگال سے آٹھ مسلم ممبر پارلیامنٹ منتخب ہو کر آئے، ان کے علاوہ بہت سے صوبے ایسے بھی ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد  ۱۵  فیصد کے آس پاس ہے لیکن وہاں سے پارلیامنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے، گجرات، راجستھان، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، کرناٹک، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ اتراکھنڈ اور دہلی ان میں سر فہرست ہیں۔ سب کا ساتھ سب کا  وکاس کا نعرہ دینے والے وزیر اعظم کے گجرات کا حال یہ ہے کہ تقریبا  ۱۰  فیصد مسلمانوں کی آبادی ہونے کے باوجود  ۳۰ سال سے  کوئی بھی مسلمان پارلیمنٹ کی دہلیز تک نہیں پہنچ پایا ہے، ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ہمارا اگلا قدم کیا ہوگا جلدہی ملی رہنماوئں کو طے کرنا ہوگا، ۵۴۳  لوک سبھا سیٹوں میں سے ۸۰ سیٹوں پر دلتوں کا ریزرویشن ہے، ۴۵  پر ایس ٹی جیت کر آتے ہیں اور بیس سے بائس سیٹوں پر مسلمان منتخب ہوتے ہیں جو مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ ایک سو تیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں اگر سیاسی پارٹیاں انصاف کریں تو ۷۰  سے  ۸۰  سیٹیں مسلمانوں کو مل سکتی ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا، مسلمان حاشیے پر دھکیل دیے گئے، اس میں جتنا قصور ان سیاسی پارٹیوں کا ہے اتنا ہمارا بھی ہے، مسلمانوں نے کبھی بھی سیاسی حصہ داری کی بات ہی نہیں کی  اس کی ایک بڑی وجہ شاید ہماری سیاسی مصلحت پسندی تھی ہم نے سیاست کو اتنا اچھوت سمجھ لیا کہ اس کے سایے سے بھی دور بھاگنے لگے  دوسری  طرف ہم اس کے بھی شدید خواہش تھے کہ سیاسی پارٹیاں ہمارے مفاد کا خیال رکھیں جو کبھی بھی ممکن نہیں تھا، آٹے میں نمک کے برابر کچھ نام نہاد مسلم رہنما ضرور پیدا ہوئے لیکن وہ اوقاف کے چیرمین اور اقلیتی کمیشن کی صدارت کی حصولیابی پر اتنے خوش ہوگئے کہ ملت کا درد ہی بھول بیٹھے ایسے میں مسلمانوں کا یہی حال ہونا تھا۔

جمہوریت میں سرو ں کی قیمت ہوتی ہے اس میں آپ کے بازو کی کوئی قیمت نہیں ہے، جوشیلے اور جذباتی نعروں کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے سوچیئے، کیا کوئی ایسا راستہ ہے  جس سے مسلمانوں میں سیاست کے تئیں بیداری آئے، اس ملک کی تعمیر وترقی میں ہمارا بھی سیاسی حصہ ہو ؟ راہ کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے، ہمیں ایک طرف ہندوستانی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا سیاسی حق بھی مانگنا ہے، دوسری طرف اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ہم جو بھی لائحہ عمل تیار کریں اس سے فرقہ پرستی اور سماجی تفرقہ بازی کو فروغ نہ ملے۔ بعض لوگ مسلمانوں کی علاحدہ پارٹی بنانے پر زور دے رہے ہیں  یاد رکھیئے اگر ایسا ہوا تو یہ ہماری سب سے بڑی سیاسی بھول ہوگی، ہوسکتا ہے آپ سماج وادی بہوجن سماج وادی اکالی دل اور شیو سینا کی مثال دیں لیکن یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ یہ پارٹیاں ذاتیات پر مبنی ہیں، مذہب پر نہیں، کہیں نہ کہیں یہ پارٹیاں اپنے آپ کو ایک دوسرے کا ہمنواں مانتی  ہیں۔  یہ بھی یاد رہے کہ دو بڑی اکثریت کا سیاسی ٹکرائو اس ملک کے لئے اچھا نہیں ہوگا، جمہوری سیاست میں اکثریت کو فضیلت ہوتی ہے ایسے حالات میں مسلمانوں کو سیاسی بصیرت سے کام لینا ہوگا۔ میں مانتا ہوں کہ آج بھی برادران وطن کی اکثریت ایسی ہے جو تما م لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے میں یقین رکھتی ہے اور یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے، ہمیں انکے ساتھ سر جوڑ کے بیٹھنا چاہیئے اور ایسے سیاسی نظام پر غور کرنا چاہئے جس میں سب کی مناسب حصہ داری ہو، جہاں صرف جھوٹے وعدے نہ ہوں، سچ میں سب کاساتھ ہوسب کا وکاس ہو،یقین جانئے یہ ممکن ہے اور اس کے ہمارے ملی رہنماوئں کو آگے آنا ہوگا اور ایک مناسب سیاسی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا،خدارا دیر نہ ہو جائے:

  یہ بزم میء ہے، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود  اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔