جب سے آیا کسی پہ جی ہے جی
افتخارِ راغبؔ
جب سے آیا کسی پہ جی ہے جی
کیا کہوں کیسی بے کلی ہے جی
…
کیا کروں تیشۂ صدا رکھ کر
سامنے کوہِ بے حسی ہے جی
…
دیکھیے گنبدِ محبت میں
کس کی آواز گونجتی ہے جی
…
دشتِ امکاں میں دوڑتا ہے دماغ
دل کی منزل کچھ اور ہی ہے جی
…
کیسے سمجھوں کہ درمیاں اپنے
دوستی ہے کہ دشمنی ہے جی
…
شکریہ آپ کے تبسّم کا
اب بہت درد میں کمی ہے جی
…
ہجر کی مت بڑھایے حدّت
عمر کی برف گَل رہی ہے جی
…
بے جھجک حکم کیجیے صادر
جس میں بھی آپ کی خوشی ہے جی
…
روشنی کے میں ہو گیا ہم راہ
وقت کی سانس رُک گئی ہے جی
…
آس کی شمع ہے وہیں راغبؔ
جس دریچے میں روشنی ہے جی
تبصرے بند ہیں۔