جب سے آیا کسی پہ جی ہے جی

افتخارِ راغبؔ

جب سے آیا کسی پہ جی ہے جی

کیا کہوں کیسی بے کلی ہے جی

کیا کروں تیشۂ صدا رکھ کر

سامنے کوہِ بے حسی ہے جی

دیکھیے گنبدِ محبت میں

کس کی آواز گونجتی ہے جی

دشتِ امکاں میں دوڑتا ہے دماغ

دل کی منزل کچھ اور ہی ہے جی

کیسے سمجھوں کہ درمیاں اپنے

دوستی ہے کہ دشمنی ہے جی

شکریہ آپ کے تبسّم کا

اب بہت درد میں کمی ہے جی

ہجر کی مت بڑھایے حدّت

عمر کی برف گَل رہی ہے جی

بے جھجک حکم کیجیے صادر

جس میں بھی آپ کی خوشی ہے جی

روشنی کے میں ہو گیا ہم راہ

وقت کی سانس رُک گئی ہے جی

آس کی شمع ہے وہیں راغبؔ

جس دریچے میں روشنی ہے جی

تبصرے بند ہیں۔