جب لکھامیں نے بہت سونچ سمجھ کر لکھا
جمالؔ کاکوی
جب لکھامیں نے بہت سونچ سمجھ کر لکھا
عکسِ آئینہ ہے ، آ ئینے کے اندر لکھا
…
دل کے تپتے ہوئے صحرا کو سمندر لکھا
پھول کو پھول لکھا پتھر کو پتھر لکھا
…
میں جو شاہد ہوں ، میرا فرض تھا منظر لکھا
شب کی روداد نیا صبح کا تیور لکھا
…
لب پہ اک حرف شکایت کا نہ لایا ہر گز
ایسی خاموش مجازی کو سخن ور لکھا
…
آنکھ میں قطرہ جو آیا مرا آنسو بن کر
اس کی توقیر بڑھایا اسے گوہر لکھا
…
سخت دشوار تھا مضمون مفصل لکھنا
صرف عنوان لکھا خنجر و نشتر لکھا
…
لکھتے لکھتے ہی مجھے حرف برتنا آیا
لکھا اک بار جو سو بار مقرر لکھا
…
قید زنداں میں رہا فکر مری آزاد رہی
در ودیوار پہ جو لکھنا تھا کھل کر لکھا
…
نہ ڈرا ہے نہ بکا ہے مرا بے باک قلم
جو لکھا جمال ؔ نے بے خوف وخطر لکھا
تبصرے بند ہیں۔