ٹرینڈنگ
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
- 72 حوریں: کتنی حقیقت؟ کتنا فسانہ؟
- اڑیسہ کا المناک ٹرین حادثہ
مصنف
جمال کاکویؔ64 مضامین 0 تبصرے
کاکو ہائوں پٹنہ
نظرمیں اہل جنوں، جنوں کا اگر مقام نہ ہو
نظرمیں اہل جنوں، جنوں کا اگر مقام نہ ہو
جہاں میں اہل خرد کا بھی احترام نہ ہو
دستار کسی قوم کی معیار نہیں ہے
دستار کسی قوم کی معیار نہیں ہے
دھوکاہے اگر صاحبِ کردار نہیں ہے
جو کانٹوں کے بستر پہ سوتا نہیں ہے
جو کانٹوں کے بستر پہ سوتا نہیں ہے
جواشکوں سے دامن بھیگوتا نہیں ہے
وہ نگری شریفوں کی نگری نہیں ہے
وہ نگری شریفوں کی نگری نہیں ہے
سلامت کسی سر کی پگڑی نہیں ہے
یہ کر رہا ہے جو کافر تباہ سناٹہ
یہ کر رہا ہے جو کافر تباہ سناٹہ
میں سچ بتاؤ ہے وجہ گناہ سناٹہ
اے جگ کے خالق، جگ کے مالک، جگ کے پالن ہار
اے جگ کے خالق،جگ کے مالک،جگ کے پالن ہار
ساری دنیا سحنِ چمن ہو،بلبل کا گلزار
اپنی نہیں ہے یارو پرائی ہے زندگی
ذوق ِعمل سے ہاتھ یہ آئی ہے زندگی
ہر سانس کہ رہی ہے کمائی ہے زندگی
میر کی کوئی غزل ہو یہ کہاں ممکن ہے
دل کی روداد نقل ہو یہ کہاں ممکن ہے
عکس بھی عین اصل ہو یہ کہاں ممکن ہے
جہاں کو چاہئے بس رہبری محمد کی
جہاں کو چاہئے بس رہبری محمد کی
کتاب ِحق سے ملی روشنی محمد کی
جوشخص صبروشکر کا پیکر نہیں بنا
جوشخص صبروشکر کا پیکر نہیں بنا
اس کے لئے سکون کا اک گھر نہیں بنا
رگ ِجاں سے عقرب، ہے دل میں ظہور
رگ ِجاں سے عقرب،ہے دل میں ظہور
دعا تجھ سے کرتا ہوں ربِ غفور
گلوں کے درمیاں یہ خار خار کچھ تو ہے
گلوں کے درمیاں یہ خار خار کچھ تو ہے
چمن میں ہوتا ہے اس کا شمار کچھ تو ہے
جو اپنے عیب سے غافل نہ ہوگی، باخبر ہوگی
جو اپنے عیب سے غافل نہ ہوگی،باخبر ہوگی
وہ عارف کی نظر ہوگی، نگاہِ دیدہ بر ہوگی
اپنوں سے عداوت یا بیر نہیں ہوتا ہے
اپنوں سے عداوت یا بیر نہیں ہوتا ہے
دیوار کے اس جانب غیر نہیں ہوتا ہے
زندگی قیس کی وحشت کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی قیس کی وحشت کے سوا کچھ بھی نہیں
حاصلِ زیست بھی حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں
ہر رہ گزرکے ہاتھ میں پتھر ہے کیا کروں
میرے جنوں کی شہر میں تشہیر ہو گئی
ہر رہ گزر کے ہاتھ میں پتھر ہے کیا کروں
سخن وری میرے دل کی زبان تنہائی
سخن وری میرے دل کی زبان تنہائی
خیال خواب کی ہے ترجمان تنہائی
عکس خاموش ہے تصویر نظر آئی ہے
عکس خاموش ہے تصویر نظر آئی ہے
بے زبانی ہے کہاں قوت گویائی ہے
ہم ووٹ اسے دیں گے
ہاں تم بھی بدل جاؤ ہاں تم بھی سنبھل جاؤہم ووٹ نہیں دیں گے ہم ووٹ نہیں دیں گے
کہاں دنیا میں کچھ بھی اے دلِ بیمار تیرا ہے
کہاں دنیا میں کچھ بھی اے دلِ بیمار تیرا ہے
تجھے دھوکا ہوا ہے کب کوئی دربار تیرا ہے
کھوٹا سکہ ہی تو تھا جب چل گیا تو چل گیا
کھوٹا سکہ ہی تو تھا جب چل گیا تو چل گیا
لینے والے کا برا جب چل گیا تو چل گیا