گلوں کے درمیاں یہ خار خار کچھ تو ہے

جمالؔ کاکوی

گلوں کے درمیاں یہ خار خار کچھ تو ہے

چمن میں ہوتا ہے اس کا شمار کچھ تو ہے

بہارلائی ہے فصلِ بہار کچھ تو ہے

کیاہے رت نے جو سولہ سنگار کچھ تو ہے

کہے گا کون کہ کچھ بھی نہیں ہے دیوانہ

شبِ فراق میں اختر شمار کچھ تو ہے

تمہارے باغ کے گنچے حسین ہے لیکن

یہ داغ داغ دلِ داغ دار کچھ تو ہے

کام جیسا ہو ویسا مقام ملتاہے

چلوگے چال تو پھرجیت ہار کچھ تو ہے

رسائی آنکھ کی دور تک نہیں ہوتی

خلابھی وہم اندھیرے کے پار کچھ تو ہے

نہ مردہ ان کو کہے یہ حکم کیوں ہوا صادر

کسی کی آخری منزل مزار کچھ تو ہے

تباہ حال مگر پاک ہے کفن میرا

گریباں چاک دامن تارتار کچھ تو ہے

ترے بغیر محرم، یہ عید ہو جاتی

تمہارا خط بھی غنیمت ہے یار کچھ تو ہے

یہ قرب کی ہے علامت یا اعلان دوری کا

ہوئی ہے بیچ میں حائل دیوار کچھ تو ہے

اسی کی یاد میں جلتا ہے تیرا پروانہ

کہ تاج وتخت نہیں تاجدار کچھ تو ہے

جمالؔ کچھ بھی نہیں ہے جمال نام کا ہے

تری عطا ہے اے پروردگار کچھ تو ہے

تبصرے بند ہیں۔