سوشل میڈیا:  زہر پھر زہر ہے،چاہے  جو نام دو

خالد سیف الدین

انسان دُنیا کی واحد مخلوق ہے جسے ابلاغ  (Communication) کا اعجاز حاصل ہوا ہے کہ وہ اپنا پیغام کسی دوسرے تک پہنچا سکے۔  جب ٹیکنالوجی وجود میں نہیں آئی تھی اس وقت ابلاغ کے ذرائع بہت ہی تھکے ہوئے تھے، جیسا کہ گھوڑوں کا استعمال،  کبوتروں اور دیگر پرندوں کا استعمال  وغیرہ۔ جوں جوں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہوتی گئی ذریعہ ابلاغ  بھی ترقی پزیر ہوتا گیا۔ پوسٹ، ٹیلی گرام،  ریڈیو،  ٹیلی فون،ٹیلی وژن، پیجر، اور موبائیل کے مراحل طے کرتے ہوئے دور حاضر میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون تک کی رسائی نے ذریعہ ابلاغ کو بے انتہا ء تیزی فراہم کردی ہے، ان حیرت انگیز ایجادات سے استفادہ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ نظروں کو خیرہ کردینے والی یہ سائنسی تجلیات آج زندگی کے ہر شعبہ پر حکمرانی کر رہی ہیں۔  انٹر نیٹ کی برق رفتار ترقی نے رابطۂ عامّہ کی تمام قدیم روایتوں کو تبدیل کرکے ایک جدید طریقۂ  رابطۂ عامّہ کو جنم دیا ہے جسے ہم سوشل میڈیا  (سماجی ذریعۂ ابلاغ )  کے نام سے جاننے لگے ہیں۔  یہ ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اظہار رائے، تبادلہ ٔ خیال، تصویریں اور ویڈیوز شیئر کرنے کی بھرپور سہولت دستیاب کرتا ہے اور اسی منفرد خصوصیت کی وجہ سے اسکی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ بھی ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔

سوشل میڈیا کے تحت اس میں بے شمار ویب سائٹس بھی موجود ہیں جن میں سے ذیادہ تر لوگ فیس بُک (Facebook)  ٹویٹر (Twitter) ، لینکڈان(Linkdin)،  فلیکر(Flicker)،  انسٹاگرام (Instagram)، پنٹ ریسٹ (Printerest) ،  گوگل پلس(G+)   اور یوٹیوب (Youtube)  وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا میں فیس بُک (Facebook)  بہت ذیادہ مقبول عام پلیٹ فارم ہے۔ دُنیا بھر میں ڈھائی عرب  سے زائد لوگ اس کے استعمال میں ملوث  پائے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ اور یورپ میں فیس بُک کا استعمال کرنے والی ذیادہ تر وہ خواتین ہیں جن کی عمریں 55 – 65   سال کے درمیان ہیں۔

 فیس بُک کی ایجاد  2003 ء  میں فیس میش  (Face Mash)  کے عنوان سے ہارڈورڈ یونیورسٹی،  امریکہ  کے طالب علم مارک ذکربرگ (Mark Zukerberg)   نے کی تھی اور فوراََ  2004 ء میں فیس میش کا نام تبدیل کرتے ہوئے فیس بُک رکھ دیا گیا تھا۔ مارک ذکربرگ نے اپنی اس ایجاد کے مُضِر اثرات کے پیش نظر اس کے استعمال سے خود کو اور اپنے اہل خاندان کو ہمیشہ دور رکھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فیس بُک مثبت سے زیادہ منفی مقاصد (Cause) کے لئے استعمال ہوگااور اس انٹر نیٹ کی سہولیات تمام معاشرے کو خراب کرکے رکھ دے گی جبکہ ان ایجادا ت کا مثبت پہلو یہ تھا کہ،  قدرتی آفات اور راحتی کا م کے علاوہ دیگر معلومات کی ترسیل ہو، اشتہاری دُنیا اور مارکیٹنگ میں آسانیاں پیدا ہوں، یہ ذریعہ ابلاغ  مختلف  مذاہب کے مابین یک جہتی کا ذریعہ بنے،  تعلیم و تعلم کی سہولتیں مہیاء ہوں وغیرہ۔ لیکن اس کے برخلاف یہ جدید سوشل میڈیا منفی راستے پر چل پڑا ہے۔

آج سوشل میڈیا کا استعمال وصیلۂ ترقی کے بجائے راستہ برائے تنزلی  بن چُکا ہے،  اخلاقی گراوٹ اور روحانی زوال ہرسوں عام ہوتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کے بے جا استعمال نے گُناہوں کی نفرتوں کو ہمارے دلوں سے نکال دیا ہے۔  جالی اکاؤنٹ بناکر رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے۔ اب ہم ہماری سوچ کی ابتداء  بدگمانی سے کرنے لگے ہیں۔  فیس بُک اور انسٹاگرام پر عورتوں اور مردوں کا ایک خاص گروپ سماج کو برباد کرنے کا کام کررہا ہے۔ اس گروپ میں شامل عورتیں،  مردوں اور نوجوانوں کو بُرائی کی طرف راغب کررہی ہیں تو دوسری طرف مردوں کا ایک مخصوص گروپ، عورتوں اور لڑکیوں کو غلط افعال کی جانب متوجہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار نوجوان ہیں جو ان غلط راستوں پر چل پڑے ہیں اُن کی خبر داری کون لے گا؟  آج اس دور میں لڑکی کی حفاظت تو قدرِ آسان ہے جبکہ نوجوان لڑکوں کی حفاظت بے حد مشکل کام ہے چونکہ اکثر والدین لڑکوں کی حرکات سے بے خبر رہتے ہیں۔

بین الاقوامی تحقیق کی ایک رپورٹ کے مطابق جس طرح منشیات اور دیگر نشیلی چیزوں کا استعمال انسان کو  سرور بخشتا ہے اور اسکے عادی افراد کوکین، ہروئین  اور چرس وغیرہ کے استعمال کے بعد خود کو پُر سکون محسوس کرتے ہیں عین اُسی طرح سوشل میڈیا کا کثرت سے استعمال انسان کو وہی لذّت فراہم کرتا ہے جو ایک عادی نشہ باز نشیلی چیزیں استعمال کرنے کے بعد محسوس کرتا ہے۔ گویا سوشل میڈیا کا بکثرت استعمال ایک نشہ بن کر 80   فیصد نوجوانوں کو خرافات میں مبتلا ء کرچُکا ہے۔ اس طرح کے نشہ کرنے سے انسانی دماغ کی کیمیائی ساخت بدل جاتی ہے۔ یہ دماغ کے اُن خطرناک حصّوں (Cells)   کو فعال کردیتا ہے جو کہ صرف نشیلی چیزوں کے استعمال سے ہی فعال ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی عقل خراب اور بے کار ہوجاتی ہے اور وہ ایسی حرکات کا مرتکب ہوجاتا ہے جو انسان کو صفِ انسانیت سے گرادیتی ہیں۔  وہ اچھائی اور بُرائی کی تمیز کھو بیٹھتا ہے اور سماج میں اخلاقی گراوٹ اور زوال کا ذمہ دار بن جاتا ہے جبکہ  ’اخلاق‘  مومن کی عظمت کی علامت ہے۔ انسان میں شائستگی، ادب، خوش اصلوبی، فرماں برداری،  تواضع وانکساری کو حُسن اخلاق ہی پروان چڑھاتا ہے۔ ایک دوسرے بین الاقوامی سروے کے مطابق نوجوانوں میں پائے جانے والے دباؤ اور پریشانیوں میں 70  فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا کا استعمال ہے۔

آج ہمارا نوجوان انٹرنیٹ کی دنیا میں مگن ہوکر اپنا وجود فراموش کرچکا ہے جبکہ اُسے اپنی تعلیم کے حصول کے لئے اپنا وقت کتابی مطالعہ پر صرف کرنا تھا وہ اپنا سارا وقت انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا میں  غرق  کرتا نظر آرہا ہے اور ظلم و ستم،  بربریت اور اشتعال انگیزی کے دلدل میں پھنستا جارہا ہے جبکہ چند ایک نوجوان انہی عادتوں کی وجہ سے جھوٹے مقدمات میں پھنس کر قید و بند کی صحبتیں جھیل رہے ہیں، ان میں  بیشتر افراد نے اپنے لاشعور میں سوشل میڈیا پر موجود غلط ویب سائٹس کو چھیڑ دیا ہوگا؟  جبکہ وہ اس حقیقت سے بھی لا علم تھے کے محکمئہ سائبرکرائم کی نظریں 24   گھنٹوں سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کے صارفین پر لگی ہوئی ہوتی ہیں، کیونکہ اس کا راست تعلق ملک کے حفاظتی نظام سے وابستہ ہے۔ ذیادہ تر سائبر جرائم فیس بُک کے ذریعہ ہوتے ہیں دیگر جرائم کے علاوہ کسی کی اجازت کے بغیر اُسکی تصویر یا پھر اُسکے تعلق سے غلط مواد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا،  دل شکن،  توہین آمیز،  گستاخانہ پیغامات  کے علاوہ  جارحانہ  یا پھر امن و شانتی کے لئے خطرہ پیدا کرنیوالے بیانات،  تصویریں، ویڈیوس وغیرہ بھی سائبر کرائم کے زمرے میں آجاتے ہیں۔ اس طرح کے جرم ثابت ہونے  پر IT Act 2000  کے سیکشن 66 A ،  66 E،  اور 67 A   کے تحت خاطی پر کروائی کی جاتی ہے جس کا انجام جیل کی صحبتیں اور لاکھوں روپئے نقد جُرمانہ ہوتاہے۔ اکثر افراد نا سمجھی میں سائبر کرائم کے مرتکب ہوتے جارہے ہیں۔  محکمۂ پولس کے سی آئی ڈی شعبہ کے تحت سائبر کرائم سیل ملک کے تمام شہروں میں موجود ہے۔

  زمانۂ  قدیم میں تیروں تلواروں سے جنگ لڑی جاتی تھی،  بہادر سپاہی میدانِ جنگ میں خود کو جھونک دیتے تھے  ان جانباز سپاہیوں نے دُنیا کا ایک بڑا حصّہ سلطنتِ اسلامیہ میں داخل کردیا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور آہستہ آہستہ جب قوم کے نوجوان چوسر، مرغ بازی، کبوتر بازی اور پتنگ بازی میں کھوگئے اور شطرنج کی بساط پر جب ایک دوسرے کو شئہ اور مات دینے لگے تب ہماری حکومتیں جاتی رہیں اور آج دنیا بھر میں اور خصوصاََ ملکِ عزیز میں ’’نئے اچھوت‘‘ (New Untouchables)   اس عنوان سے ہماری شناخت ہورہی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اس ذلت سے ابھرنا ہوگا  ایسی چیزوں کے استعمال سے اجتناب برتنا ہوگا جن سے شر پھیلتا ہو، ہمیں خود اپنی کردار سازی کرنی ہوگی کیونکہ موت انسان کو مار سکتی ہے مگر اچھے کردار والے، لوگوں کے دلوں اور دعاؤں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ انسان کو دُنیا میں زندگی گزارنے کا بس ایک ہی موقع ملتا ہے، کاش ہمیں اس کی اہمیت اور قدرو قیمت کا پورا احساس ہوجائے۔۔۔۔۔۔ !

تبصرے بند ہیں۔