انسان اور زمین کی حکومت (قسط 114)

رستم علی خان

آنحضرتﷺ کو قیام مدینہ کی بہت سی باتیں یاد رہ گئیں تھیں- جب آپﷺ قیام مدینہ کے وقت میں ایک دفعہ بنو عدی کے مقام سے گزرے تو فرمایا کہ اسی مکان میں میری والدہ رہتی تھیں- یہی وہ تالاب ہے جس میں میں نے تیرنا سیکھا تھا- اسی میدان میں میں انیسہ (رضاعی بہن) کے ساتھ کھیلا کرتا تھا-

القصہ والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد عبدالمطلب نے آنحضرتﷺ کو اپنے دامن تربیت میں لیا ہمیشہ آپﷺ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے- عبدالمطلب نے بیاسی برس کی عمر میں وفات پائی اور حجون میں مدفون ہوئے- اس وقت آنحضرتﷺ کی عمر آٹھ برس تھی- عبدالمطلب کا جنازہ اٹھا تو آنحضرتﷺ بھی ساتھ تھے اور فرط محبت میں روتے جاتے تھے- عبدالمطلب نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹے ابوطالب کو آنحضرتﷺ کی تربیت سپرد کی- ابوطالب نے اس فرض کو جس خوبی سے ادا کیا اس کی تفصیل آگے آتی ہے- یہ واقعہ خاص طور پر لخاظ رکھنے کے قابل ہے کہ عبدالمطلب کی وفات نے بنو ہاشم کے رتبہ و امتیاز کو دفعتًا گھٹا دیا- اور یہ پہلا دن تھا کہ دنیاوی اقتدار کے لحاظ سے بنو امیہ کا خاندان بنو ہاشم پر غالب آ گیا- عبدالمطلب کی مسند ریاست پر اب حرب متمکن ہوا جو امیہ کا نامور فرزند تھا- مناصب ریاست میں سے صرف "سقایہ” یعنی حاجیوں کو پانی پلانا حضرت عباسؓ کے ہاتھ میں رہا- جو عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے-

عبدالمطلب کے دس بیٹے مختلف ازواج میں سے تھے- ان میں سے آنحضرتﷺ کے والد عبداللہ اور ابوطالب ماں جائے بھائی تھے- اس لیے عبدالمطلب نے آنحضرتﷺ کو ابوطالب کی ہی آغوش تربیت میں دیا- ابوطالب آنحضرتﷺ سے اس قدر محبت رکھتے تھے کہ آپﷺ کے مقابلے میں اپنے سگے بچوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے- سوتے تو آنحضرتﷺ کو ساتھ لیکر سوتے اور جب باہر جاتے تو آنحضرتﷺ کو ساتھ لیکر جاتے- غالبًا جب آپﷺ کی عمر دس بارہ برس کی ہوئی تو آپﷺ نے بکریاں چرائیں- عرب میں بکریاں چرانا معیوب کام نہ تھا اور بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چرایا کرتے تھے- خود قران مجید میں ارشاد ہے کہ؛ "اور حقیقت یہ ہے کہ یہ عالم کی گلہ بانی کا دیباچہ تھا-” یعنی آنحضرتﷺ کی بکریاں چرانا بھی اللہ کیطرف سے آپﷺ کی تربیت کا ایک حصہ تھا کہ آگے چل کر آپﷺ کو پورے عالم اور مکمل انسانیت کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا تھا- اور جانوروں میں سب سے سرکش جانور بکریاں ہوتی ہیں- زمانہ رسالت میں آپﷺ اس سادہ اور پرلطف مشغلہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے- ایک دفعہ آپﷺ صحابہ کرامؓ کیساتھ جنگل میں تشریف لے گئے- صحابہ کرامؓ "جھڑ بیریاں” توڑ توڑ کر کھانے لگے- آپﷺ نے فرمایا جو خوب سیاہ ہوتے ہیں زیادہ مزے کے ہوتے ہیں اور یہ میرا اس زمانے کا تجربہ ہے جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا-

ابوطالب تجارت کا کاروبار کرتے تھے- قریش کا دستور تھا سال میں ایک دفعہ تجارت کی غرض سے ملک شام کے سفر کو جایا کرتے تھے- آنحضرتﷺ کی عمر بمشکل بارہ برس کی ہو گی کہ ابوطالب نے حسب دستور شام کے سفر کا ارادہ کیا- سفر کی تکلیف یا کسی اور وجہ سے وہ آنحضرتﷺ کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتے تھے- لیکن آنحضرتﷺ کو ابوطالب سے اس قدر محبت تھی کہ جب وہ چلنے لگے تو آپﷺ بھاگ کر ان سے لپٹ گئے- ابوطالب نے آپ کی دل شکنی گوارہ نہ کی اور ساتھ لے لیا- عام مورخین کے بیان کے موافق بحیرا کا مشہور واقعہ اسی سفر میں پیش آیا- اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جب ابوطالب بصرہ میں پنہچے تو ایک عیسائی راہب کی خانقاہ میں اترے جس کا نام بحیرا تھا- جس نے آنحضرتﷺ کو دیکھ کر کہا کہ یہ "سید المرسلینﷺ” ہیں- لوگوں نے پوچھا کہ تم نے کیونکر جانا- اس نے کہا کہ جب تم لوگ پہاڑ سے اترے تو جس قدر درخت اور پتھر تھے سب سجدے کے لیے جھک گئے-لیکن بہت سے مفسرین نے اس روایت کو ضعیف اور من گھڑت کہا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔

سب سے پہلی بات کہ یہ روایت مختلف پیرایوں میں بیان کی گئی ہے- تعجب یہ ہے کہ اس روایت سے جس قدر مسلمانوں کو شغف ہے اس سے کہیں زیادہ عیسائیوں کو ہے- سرولیم میور، ڈریپر، مارگولیوس وغیرہ سب اس واقع کو عیسائیت کی فتح عظیم خیال کرتے ہیں- اور اس بات کے مدعی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مذہب کے حقائق و اسرار اسی راہب سے سیکھے اور جو نکتے اس نے بتا دئیے تھے انہی پر آنحضرتﷺ نے عقائد اسلام کی بنیاد رکھی- اسلام کے تمام عمدہ اصول انہی نکتوں کے شروح اور حواشی ہیں-

ڈریپر صاحب "معرکہ علم و مذہب” میں لکھتے ہیں؛ بحیرا راہب نے بصری کہ خانقاہ میں محمدﷺ کو سطوری عقائد کی تعلیم دی- آپﷺ کے ناتربیت یافتہ لیکن اخاذ دماغ نے نہ صرف اپنے اتالیق کے مذہبی بلکہ فلسفیانہ خیالات کا گہرا اثر قبول کیا- بعد میں آپﷺ کے طرز عمل سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ سطوریوں (عیسائیوں کے ایک مذہبی فرقہ کا نام ہے) کے مذہبی عقائد نے کہاں تک آپﷺ پر قابو پا لیا تھا-

سرولیم میور صاحب نے بھی نہایت آب و رنگ سے ثابت کرنا چاہا ہے کہ آنحضرتﷺ کو بت پرستی سے جو نفرت پیدا ہوئی اور ایک مذہب جدید کا جو خاکہ آپﷺ نے قائم کیا وہ سب اسی سفر اور اس کے مختلف تجارب اور مشاہدات کے نتائج تھے- (لیکن ظاہر ہے کہ اگر شارع اسلام بالفرض ان عیسائی اساتذہ کا تعلیم یافتہ ہوتا تو ناممکن تھا کہ توحید خالص کا وہ ولولہ اور تثلیث سے نفرت کا وہ جوش اس کے سینہ میں پیدا ہو سکتا جو قرآن کے ہر صفحہ میں نظر آتا ہے-)

عیسائی مصنفین اگر اس روایت کو صحیح مانتے ہیں تو اس طرح ماننا چاہئیے جس طرح روایت میں مذکور ہے- اس میں بحیرا کی تعلیم کا کہیں زکر نہیں اور قیاس میں بھی نہیں آ سکتا کہ ایک دس بارہ برس کے بچے کو مذہب کے تمام دقائق سکھا دئیے جائیں اور اگر یہ کوئی خرق عادت تھا تو بحیرا کے تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی-؟

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت ناقابل اعتبار ہے- اس روایت کے جس قدر طریقے ہیں سب مرسل ہیں- یعنی راوی اول واقعہ کے وقت خود موجود نہیں تھا- اور اس راوی کا نام نہیں بیان کرتا جو واقعہ کے وقت وہاں موجود تھا-

القصہ عرب میں اسلام کے آغاز تک لڑائیوں کا جو متواتر سلسلہ چلا آتا ہے ان میں حرب فجار کی جنگ سب سے زیادہ مشہور اور خطرناک ہے- یہ لڑائی قریش اور قیس قبیلہ کے درمیان ہوئی تھی- قریش کے تمام خاندانوں نے اس معرکہ میں اپنی الگ الگ فوجیں قائم کی تھیں- آل ہاشم کے علم بردار زبیر بن عبدالمطلب تھے- اور اسی صف میں جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی شریک تھے-  بڑے زور کا معرکہ ہوا- اول قبیلہ قیس اور پھر قریش غالب آئے- اور بلآخر صلح پر خاتمہ ہو گیا- اس لڑائی میں قریش کا رئیس اور سپہ سالار اعظم حرب بن امیہ تھا جو ابوسفیانؓ کا باپ اور امیر معاویہؓ کا دادا تھا-

چونکہ یہ قریش اس جنگ میں برسر حق تھے اور خاندان کے نام و ننگ کا معاملہ تھا اس لیے رسول اللہﷺ نے بھی شرکت فرمائی- لیکن ابن ہشام نے لکھا ہے کہ آپﷺ نے کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا- امام سہیلی نے صاف تصریح کی ہے کہ آنحضرتﷺ نے خود جنگ نہیں کی، ان کے الفاظ یہ ہیں؛ "اور آپﷺ نے اس لڑائی میں جنگ نہیں کی حالانکہ آپﷺ لڑائی کی عمر کو پنہچ چکے تھے- اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لڑائی ایام الحرام میں پیش آئی تھی نیز یہ وجہ تھی کہ فریقین کافر تھے اور مسلمانوں کو لڑائی کا حکم صرف اس لیے خدا نے دیا ہے کہ حق کا بول بالا ہو-"

اس لڑائی کو فجار اس لیے کہتے ہیں کہ ایام الحرام میں یعنی ان مہینوں میں پیش آئی تھی جن میں لڑنا جائز نہیں تھا-

تبصرے بند ہیں۔