ہر رہ گزرکے ہاتھ میں پتھر ہے کیا کروں 

جمالؔ کاکوی

ان کی عطایہ میرا مقدرہے کیا کروں

رومال بن گئی میری چادر ہے کیا کروں

فکر ِ سخن محال ہے ارضِ سخن محال

تلوار برہنہ مرے سر پر ہے کیا کروں

سالے اور سالیاں سبھی مل کر کرے دھمال

کرفیوکا حکم لاگوبس مجھ پر ہے کیا کروں

بیگم ہے پھولن دیوی تو کانٹے ہیں سالیاں

سالا تمام ان کا ہی مخبر ہے کیا کروں

میرے جنوں کی شہر میں تشہیر ہو گئی

ہر رہ گزر کے ہاتھ میں پتھر ہے کیا کروں

کیا پوچھتے ہو حال کسی گھر جمائی کا

اجرت بغیر بن گیا نوکر ہوں کیا کروں

گاڑی ہر ایک رقیب کی طوفان میل ہے

سائیکل جو میرے پاس،پنچر ہے کیا کروں

بیگم کی ڈانٹ سننے پہ مجبور ہوں جمالؔ

جھولی میں خاک کچھ نہیں بے زر ہوں کیا کروں

تبصرے بند ہیں۔