دعاء قرآنی: انسانیت کا مداوا

محمد صابر حسین ندوی

حیات انسانی ولادت سےموت تک مختلف مراحل و مراتب کا سامناکرتی ہے،خوشی وغمی،جلوت وخلوت،خودی  و بے خودی اور دل بیزاری و دل لگی اس کے دوش بدوش چلتی ہیں؛اسی درمیان اپنے مقصد حقیقی کو پہچاننے اور رب معنوی کا بت توڑتے ہوئے رب لافانی کو کائنات ارضی و سماوی کا مالک و پروردگار اور لائق عبادت سمجھنا ہے،ساتھ ہی اپنی تمام پریشانیوں، دقتوں اور بے چینیوں کا حل اس کے آئین ودستور یعنی کلام مجید میں تلاش کرنا ہے، یہی ہے جو اس پر اس کی زندگی کی حقیقت آشکارا کرتی ہےاور اسے بتلاتی ہے کہ موت وحیات توصرف تمہیں آزمانے اور بہتر کام کے مواقع فراہم کرنے کا نام ہے، اللہ کا فرمان ہے:الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (ملک:۲)،چنانچہ اپنے آپ کو ہر گزبے کا ر نہ سمجھا جائے، خدا کی مخلوق کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے، اور یہ نہ جانا جائے کہ آسمان وزمین کوئی تفریح گاہ ہے:وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ(انبیاء:۱۶)اور ایک جگہ ہے: بَاطِلًا(ص:۲۷)،دنیا کی ہر شئی اسی کی طرف لوٹتی ہے، وہی مرجع و ماوی ہے،لہذا ہر گھڑی، ہر آن اسی کے دربار میں اپنا دل ڈال دو،اس سے مانگو، اس سے التجا و ااستدعا کرو، اپنی درخواستیں لگاو اورداستان زندگی کیلئے اسی کے آستانے کو لازم کر لو!کیونکہ وہی سننے والا اور دعاؤں کو سمجھنے والا ہے: إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيم ُ(یوسف: ۳۴)۔

عموما معبود والہی کا تصور ایسا ہوتا ہے کہ بندہ کی اس تک ترسائی نہ ہو، بندہ اور بندگی کے درمیان وسائل کی ضرورت پیش آتی ہے، بزرگوں اور باباوں سے لیکر بتوں کا خاکہ اسی رنگ سے بھرا ہوا ہے، اور اسی خیال نے مذہبی اجارہ داری کی بنیاد ڈالی ہے، جس میں داناں و ناداں سب برابر معلوم ہوتے ہیں’’الا ما عاصاہ اللہ‘‘ لیکن رب ذوالجلال کے لئے تمہیں میلوں کی مسافتیں بھی طے نہیں کرنی،وقت ضائع نہیں کرنا، ذرائع میں پڑ کر خود کو گمراہوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بنانا اور نا ہی حدود وثغور کی پرواہ کرنی ہے؛کیونکہ وہ تولا مکیں ہے، ہر مکاں کی زینت اسی سے ہے، ہوا وں، فضاوں اور زیر زمیں ہر جگہ اسی لے وجود سے وجود ہے، بالخصوص انسان تو اس کا خاص بندہ اور تخلیق ہے، اس کی کاریگری کا انمول تحفہ ہے، ایسے وہ کیسے اس سے دور ہو سکتا تھا، اسی لئےقرآن نے انسان سے قربت بتاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو تمہارے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے: وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ(ق:۱۶)۔

چنانچہ انسان پر لازم ہے کہ اپنے رب کی عظمت و احسان کا اظہارکرتے ہوئے اپنی صلاح وفلاح کی فکر کرے اور چونکہ سارے اختیارات صرف اسی کے ہاتھ میں ہے؛لہذا اسی سے درخواست بھی کرے، یہی وہ درخواست ہے جو دعا کہلاتی ہے، قرآن مجید نے اس سلسلہ میں بھی اسے تنہا نہیں چھوڑا بلکہ مکمل رہنمائی کی اور جابجا متعدد دعاؤں کے نمونے بتلائے؛جو حقیقتاً انسانی نفس کے نمائندے اور صحیح ترجمان ہیں، انہیں کے ذریعہ انسان ڈپریشن، زندگی کی over loadingاور اپنی جان ناحق ختم کرنے سے بچا سکتا ہے، زمانے کے جھمیلے میں پڑ کر اپنے دل کو زنگ آلود ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے، دراصل یہ دعائیں تسلی وتشفی اور احساس کمتری میںمستحکم و مظبوط بناتی ہیں، حادثات زمانہ میں پائے ثبات بخشتی ہیں، لرزتے ہونٹوں کو اور کاپنتے پیروں کو تھامتی ہے، اور اسے مصائب کے آگے نصب کر دیتی ہے،پھررفتہ رفتہ تعمیر انسانیت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے، اور پوری انسانیت گہوارہ محبت بن جاتی ہے، اور اس گل سرسبد کا ہر پھول دنیا کو معطر کرتا ہے؛اسکی پہلی مثال قرآن کریم کی پہلی سورت ’’سورہ فاتحہ‘‘ہے،جس کے اندر جامع انداز میں رب ذوالجلال کی برتری وخوبی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے لئے خیروبہتری کی درخواست کی گئی ہے، ایک طرف بندگی کے تقاضون کو پورا کیا گیا ہے تو دوسری طرف انسانی کمزوری کا برمل اعترف کرتے ہوئے نجات کی بات کی گئی ہے، عاجزی و انکساری اور عبودیت کے ہر پہلو اس خوبی کے ساتھ پرویا گیا ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال ملنا مشکل ہے، اسی لئے اسے ہر نماز کا لازمہ قرار دیا گیا ہے(ملاحظہ ہو: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۲) مَالِكِ۔۔۔۔الخ)

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانون کا غلطی کرنا آبائی وراثت ہے، لیکن ا س سے پریشان ہو کر اپنے آپ کو ہلاک کر لینا، خود کشی کر کے موت کو گلے لگا لینا انسانیت سے پرے عمل ہے، جسے کسی بھی شریعت یا قانون اور انسانی عدالت میں کوئی جگہ نہیں دی گئی اور اگر کہیں جگہ دی گئی ہو تو وہ قانون الہی اور فطرت انسانی کے خلاف ہے،اس کی مذمت قرآن نے خوب کی ؛ساتھ ہی یہ بھی سکھلا دیا کہ معافی مانگنا، اپنی غلطیوں پر ندامت و پشیمانی کااظہار بھی وراثت آدم ہے؛چنانچہ ایسی بہت سی دعائیں سکھلائی گئیں جو خطاؤں میں انسانیت کا مدوا ہیں، اسے ہمت و طاقت دیتے ہیں اور پھر سے اٹھ کھڑے ہونے اور ایک نئی زندگی کی شروعات کرنے کی دعوت دیتے ہیں،مثلاً:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (بقرۃ:۲۸۶): رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (عمران:۱۶): رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (عمران:۸)وغیرہ

گناہوں کا اعتراف ہی انسان کو انسان بناتاہے، اگر اس میں ہٹ دھرمی اور زور زبردستی کی جائے اور اپنی لغزش پر اڑیل رویہ اختیار کیا جائے تو یہ انسان کو شیطان کے زمرے میں کھڑ اکردیتی ہے،پھر وہ خدا کا مبغوض بندہ بن جاتا ہے، وہ دھتکارا ہوا اور ملعون گردانا جاتا ہے،مشہور ہے کہ جب حضرت آدمؑ نے غلطی کی تو معافی بھی مانگی ؛اللہ کو وہ انداز و الفاظ اتنے محبوب ہوئے کہ پوری بنی نوع کے لئے محفوط کر دیا اور ایسے ہی معافی مانگنے کا حکم دیا :رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ(اعراف:۲۳)، یقینا انبیاکرام معصوم عن الخطا تھے؛ لیکن بشری تقاضے سے عاری نہ تھے، چنانچہ بہ تقضائے بشریت حضرت یونس ؑسے بھی غلطی ہوئی ؛انکی دعا یوں محفوظ کی گئی: لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ(انبیاء: ۸۷)، حضرت موسیؑ نے ایک قبطی کو غلطی سے قتل کر دیا، آپ نے معافی مانگی، اپنے جرم کا اعتراف کیا اور پھر رب کریم کی کریمی کا واسطہ دے کر اس سے عفو ودرگزری کا پروانہ مانگا: قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (۱۶) قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِلْمُجْرِمِينَ (انبیاء:۱۷)،۔

حضرت ابراہیمؑ برگزیدہ نبی و انسان اور اطاعت و فرمانبرداری کے پیکر تھے،وہ خدا کے دوست تھے، وہ انبیا کے جد امجد اور نوع بشر کی ناز ہیں،اللہ نے ان کی جہاں بہت سی صفات کے بارے میں بتلایا وہیں ان کی خاص کیفیت دعا بھی بتلائی؛ جو پوری انسانیت کے لئے ہمدم وہم نوا کے مثل ہے، یہ دعا نہ صرف ذاتی طور بلکہ معاشرتی طور پر انسان کو عظیم انسان بناتی ہے، اس کے دل کو پاک اور طبیعت کو چمکتا سونا بناتی ہے، ذرا غور سے یہ دعا پڑھئے!وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا۔ ۔۔۔۔الی۔۔۔رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (ابراہیم: ۳۵تا۴۱)۔قرآن کریم میںاس کے علاوہ اور بھی بہت سی دعائیں جیسے اولاد نہ ہو نے یا شادی کی شش وپنج اور مستقبل کی فکر میںنہ پڑتے ہوئے یہ د عا مانگنی چاہئے؛ کیونکہ وہی ہے جس نے زکریاؑ کی یہ گزارش سنی:وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِي (انبیاء: ۸۹)، اور یہ دعا سکھلائی: رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ(عمران:۳۸)اور:رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (فرقان:۷۴)، رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ (صافات:۱۰۰)۔

دغا بازی، دھوکا اور منافقت انسانی خصلتیں نہیں بلکہ یہ شیطان کی فطرت ہے، انسان کے اندر ان چیزوں کا پایا جانا گویا کہ انسانیت کے مغایر صفت کا پایا جانا ہے، لیکن اس کے برعکس احسان شناسی، جذبہ شکر، ہمدردی اور حسن سلوک انسانی مزاج کا وہ جوہر ہے جس کے نکھرنے سے انسان؛انسان بنتا ہے، قرآن کریم نے بھی اس جوہر کو صیقل کرنے کا سامان کیا ہے اور اسے اپنےسب بڑے محسن و مربی اور رب مجازی(والدین) کا شکر بجا لانے اور انکے لئے تا دم جاںدعاگو رہنے کی صلاح دی اور سکھلایا:وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (اسراء:۲۴)۔ اسی طرح قرآن کا اولین پیغام انسانوں کے نام لکھنا پڑھنا ہے یعنی خواندگی اس کی زینت ہے، لیکن یہ بھی بتوفیق الہی ہی ممکن ہے اسی لئے یہ خصوصی دعا بتلائی گئی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي (۲۵) وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي (۲۶) وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي (۲۷) يَفْقَهُوا قَوْلِي(طہ:۲۸)،بلکہ کہا گیا ہمیشہ یہ کہتے رہواے میرے رب! میرے علم میں اضافہ کر: وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا(طہ:۱۱۴)۔

درحقیقت قرآن کریم کلام الہی ہے، جس کا حرف، حرف باعث برکت ودعا اور تعمیر انسانیت کا ضامن ہے ؛جس کی ابتدا و انتہا انسان کو انسان بنانے اور بندوں میںعبدیت وجذبہ نیازمندی پیداکرنا ہےاورشیطانیت کی سی برتری، فخر وگھمنڈکے پہاڑکا ریزہ ریزہ کردینا ہے، ایک دوسرے میں اپنی خودی ونام نہاد حیثیت گم کر کے انسانیت کی جوت جگانا ہے؛اسی لئے باربار سکھلایا گیاکہ انسانوں کو چاہئےکہ:ربی،ربنا،اللہم یہ کہہ کر اپنی فطرت علو پر ضرب لگا ئیں اور :ظلمنا،اخطانا،اعتدنا کی رٹ لگا کر اپنے رب سے فاغفر لنا،وارحمنا،انصرنا کی ضد کریں،اور ہر ایک نئے سورج کے ساتھ تمناؤں، امیدوںاور امنگوں کی ایک نئی صبح کریں، ہر گزرتی رات اور ا سکے اندھیرے کو چیر کر سحر نو کی تلاش کریں۔

تبصرے بند ہیں۔