کہاں دنیا میں کچھ بھی اے دلِ بیمار تیرا ہے

جمالؔ کاکوی

کہاں دنیا میں کچھ بھی اے دلِ بیمار تیرا ہے
تجھے دھوکا ہوا ہے کب کوئی دربار تیرا ہے

میں تیرا ہوں تو میرا ہے فقط اقرار تیرا ہے
خفا جو یہ ہے تونا مہرباں وہ یار تیرا ہے

رقم جھولی میں تیری ہے وہ کل تیری نہیں ہوگی
بہت ارزاں ہر اک سکہ سرِ بازار تیرا ہے

نہ دل تیرانہ سر تیرا اندھیری رہگزر تیری
تجھے پاتے ،تو مل جاتا یہ بس اسرار تیرا ہے

مسافر چار دن کا ہے مسافر کا نہیں کچھ بھی
یہ پتلا خاک میں ملنے کو بس تیار تیرا ہے

بنانے والا ہے تیرا کوئی ،یہ تجھ پہ ظاہر ہے
پریشانی تری ، اقرار نہ انکار تیرا ہے

کسے فرصت تجھے دیکھے تجھے سونچے تجھے پرکھے
تری سانسیں تری سانسیں تیر ا آزار تیرا ہے

ہر اک ساحل کا تو مالک ہر اک کشتی ترے بس میں
جدھر دیکھا جہاں سونچا یہ کاروبار تیرا ہے

وطن کے دشمنوں سے ہی محبت ہے حمایت ہے
یہی تیری صحافت ہے یہی اخبار تیرا ہے

نہ صورت ہے نہ مورت ہے نہ شیشہ ہے نہ آئینہ
عجب تفکیر تیری ہے عجب اشعار تیرا ہے

سنبھلنا خاک پر چلنا جمالؔ خاک ہو جانا
یہی تقدیر تیری ہے یہی کردار تیرا ہے

تبصرے بند ہیں۔