تاعمر کھیلتے رہے آبِ رواں سے ہم
جمال ؔ کاکوی
تاعمر کھیلتے رہے آبِ رواں سے ہم
کشتی سنبھالتے رہے بادباں سے ہم
…
کیا حالِ دل بیاں کریں گے زباں سے ہم
کرتے ہیں اجتناب ہر آہ وفغاں سے ہم
…
اہلِ نظر سے ہم کہاں پوشیدہ ہیں میاں
مرقوم ہیں تاریخ میں گزرے جہاں سے ہم
…
جس کی رفاقتوں میں مجرم قرار پائے
اس کے ہی ساتھ آئے ہیں باغِ جناں سے ہم
…
اس نے بھی آج مجھ کو فراموش کردیا
جن کے لئے جدا ہوئے خود کاروا ں سے ہم
…
الزام سر ہمارے کیوں دھرتے ہیں ہم سفیر
دور ِخزاں میں بھی رہے گلستاں سے ہم
…
جو بے رخی تھی ان کی وہی بے رخی رہی
سو التجائے کر چکے نامہرباں سے ہم
…
فصلِ بہار آئی ہے گلشن میں ہر طرف
اک برگِ ناشگفتہ ہیں دورِ خزاں سے ہم
…
دنیا کو رازدار بنانا فضول ہے
رازونیاز کرتے ہیں بس رازداں سے ہم
…
نا صح نے میکدے میں جو تالا لگا دیا
خوش حال اب بِہارہے امن و اماں سے ہم
…
دل ہی نہیں تودل کی تمنا کا کیا کروں
جو دل تھا میری جان وہ لائے کہاں سے ہم
…
صد حیف بس جمالؔ میں نقطے کی ہے کمی
بارِگراں اٹھائے ہیں بارِ گراں سے ہم
تبصرے بند ہیں۔