تاعمر کھیلتے رہے آبِ رواں سے ہم

جمال ؔ کاکوی

تاعمر کھیلتے رہے آبِ رواں سے ہم

کشتی سنبھالتے رہے بادباں سے ہم

کیا حالِ دل بیاں کریں گے زباں سے ہم

کرتے ہیں اجتناب ہر آہ وفغاں سے ہم

اہلِ نظر سے ہم کہاں پوشیدہ ہیں میاں

مرقوم ہیں تاریخ میں گزرے جہاں سے ہم

جس کی رفاقتوں میں مجرم قرار پائے

اس کے ہی ساتھ آئے ہیں باغِ جناں سے ہم

اس نے بھی آج مجھ کو فراموش کردیا

جن کے لئے جدا ہوئے خود کاروا ں سے ہم

الزام سر ہمارے کیوں دھرتے ہیں ہم سفیر

دور ِخزاں میں بھی رہے گلستاں سے ہم

جو بے رخی تھی ان کی وہی بے رخی رہی

سو التجائے کر چکے نامہرباں سے ہم

فصلِ بہار آئی ہے گلشن میں ہر طرف

اک برگِ ناشگفتہ ہیں دورِ خزاں سے ہم

دنیا کو رازدار بنانا فضول ہے

رازونیاز کرتے ہیں بس رازداں سے ہم

نا صح  نے میکدے میں جو تالا لگا دیا

خوش حال اب بِہارہے امن و اماں سے ہم

دل ہی نہیں تودل کی تمنا کا کیا کروں

جو دل تھا میری جان وہ لائے کہاں سے ہم

صد حیف بس جمالؔ میں نقطے کی ہے کمی

بارِگراں اٹھائے ہیں بارِ گراں سے ہم

تبصرے بند ہیں۔