برادرانِ وطن میں دعوت الی ﷲ کا کام کیسے کریں؟

سمن فاطمہ بنت محمد الیاس

        اسلام کا پیغام تمام مسلمانوں کے لئے ہیں یہ وہی پیغام ہے جو پچھلے تمام انبیاء یعنی آدم ؑ سے لے کر آپؐ تک پہنچاتے آئے ہیں دعوتِ دین ایک ایسا فریضہ ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے پھر خواہ وہ مسلمانوں میں دعوتِ دین ہو یا غیر مسلمانوں میں۔

        عربی زبان میں دعوہ کے لغوی معنی پکارنا یا مدعو کرنا ہے جوکہ  د۔ع۔و  سے بنا ہے۔

دعوتِ دین کے اقسام  :

۱) مسلمانوں میں دعوت دیں  :  مسلمانوں کو جب دعوتِ دین دی جاتی ہے تو دین میں بگاڑ کو ختم کرنے پر زور دیا جاتا ہے یا کچھ مسلمان دین سے اس قدر د دور ہوتے ہیں کہ نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ لہٰذا مومنوں کو چاہئے کہ وہ انھیں دین کی طرف دعوت دیں۔

 ۲) غیر مسلمانوں میں دعوتِ دیں  :  ’’ ( اے پیغمبر ) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کی طرف بلائو اور بہت ہی اچھے طریقے سے ان سے مناظرہ کرو جو اس کے راستے سے بھٹک گیا ہے تمہارا پروردگاراسے بھی خوب جانتا ہے اور جو راستے پر چلتے ہیں انھیں بھی خوب جانتا ہے۔ ‘‘  ( سورہ نحل125: )

        اس آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ دعوت الی اﷲ صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ غیر مسلمانوں کیلئے بھی کرنا چاہئے۔ غیر مسلمانوں میں دعوتِ دین کا مقصدیہ ہے کہ

۱)  اسلام کا تعارف

  ۲) اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا۔

۳) دین حق کی طرف غیردعوت دینا

  ۴) انھیں یہ بتانا کہ امن، دنیا و آخرت کی بھلائی کا راستہ صِرف دینِ اسلام ہے

دعوتِ الی اﷲ کی اہمیت  : 

        آج کے معاشرہ کی طرف نظر کریں تو ہر طرف اسلام دشمنان کا بول بالا ہے کہیں مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جارہا ہے تو کہیں جاہل قوم تو کہیں آپؐ کی شخصیت کو تار تار کیا جارہا ہے توکہیں اﷲ پر تہمتیں لگائی جارہی ہیں اسلام کے احکامات اور شعار کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے مسلمانوں کو ہر جگہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہاں تک کہ اپنے دین پر عمل کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے اور مسلمان بھی اپنے دین سے دور ہیں ان تمام حالات کے لئے کہیں نہ کہیں ہم مسلمان بھی ذمہ دار ہیں جنھوں نے دعوت دین کو اہمیت نہیں دی ہم غیر مسلمانوں میں تو کیا مسلمانوں میںبھی دعوتِ دین کا کام نہیں کرتے ہم نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ اﷲ سبحانَ تعالیٰ کون ہیں آپؐ نے اور تمام انبیاء ؑ نے دنیا کو کس بات کی دعوت دیں۔

        ہم نے ہمارے برادرانِ وطن کو یہ نہیں بتایا کہ اﷲ سبحانَ تعالیٰ ساری کائنات کے رب ہیں اور آپؐ  کو صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے رحمت بناکر بھیجا گیا۔

        ’’ اے اہل کتاب انبیاء کے ایک وقفہ کے بعد ہمارا رسول تمہارے پاس دین حق کو واضح کرتا ہوآگیاہے تاکہ تم قیامت کے دن یہ عذر نہ کر سکو کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا دیکھو ایک خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے اور اﷲہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

        عیسائیوں نے عیسیٰ ؑ کا تعارف کروانے اور اپنے مذہب کی اشاعت کرنے کے لئے ایڑی چوڑی کا زور لگادیا انھوںنے دنیا کو بتایا کہ Jesus love you all  اور عیسیٰ ؑ کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے جبکہ ہم مسلمانوں نے ہمارے نبی ؐ کی تعلیمات کو دنیا میں نہ پھیلایااور نہ ہی ہمارے برادرنِ وطن کو یہ بتایا کہ آپؐ تمام انسانوں کیلئے نبی بن کر آئے ہیں اور آج ہمارا یہ حال ہیکہ ہم مسلمان خو دہی اسلام کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں۔

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمدؐ کا تمہیںپاس نہیں  (اقبالؔ)

اﷲ تعالیٰ نے دین کو صحیح حالت میں رکھنے کیلئے دو خاص انتظام فرمائے۔

۱)  ایک یہ کہ قرآن کو ہر قسم کی کمی و پیشی و تحریف و تبدیلی سے محفوظ فرمادیا تاکہ دنیا کو اﷲ کی ہدایت معلوم کرنے کے لئے کِسی نئے نبی کی ضرورت باقی نہ رہے۔

۲)   دوسرا یہ کہ اس امت کے اندر جیسا کہ صحیح حدیثوں میں وارد ہے ہمیشہ کے لئے ایک گروہ کو حق پر قائم کردیا تاکہ جو لوگ حق کے طالب ہوں اُن کے لئے اُن کا عِلم و عمل شمع راہ کا کام دیتا رہے۔

        اسطرح ایک جماعت اگرچہ اس کی تعداد کتنی ہی تھوڑی ہو اس امت میں ہمیشہ باقی رہے گی۔ فتنوں کو کتنا ہی زور ہو لیکن یہ صالح جماعت آنحضرتؐ اور آپؐ نے صحابہؓ کے علم و عمل کوزندہ رکھے گی۔ شہادت علی الناس یا دعوتِ الی اﷲ محض بطور ایک نیکی اور دینداری کے کام کے مطلوب نہیں ہے اور نہ محض مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے لئے مطلوب ہے بلکہ آنحضرتؐ کی بعثت عام کا جو مقصد اس امت کے ہاتھوں پورا ہونا ہے یہ اسکا مطالبہ ہے جو اﷲ کے ہر اُس بندے کو ادا کرنا ہے جو آپؐ کی امت میں داخل ہے یہ ایک ایسا فریضہ رسالت ہے جوآپؐ کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اس امت پر ڈالا ہے۔

        ہندوستانی برادرنِ وطن  :  اسلام بہت کم وقت میں بہت تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے جو آج دنیا کی 23 فی صد آبادی کے ساتھ عیسایت کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ انداز ے کے مطابق اسلام 2070 تک دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائیگا۔ ہندوستان میں اسلام 16% سے زیادہ لوگوں کا مذہب ہے۔ آبادی کے اعتبار سے ہندوستان ، انڈونیشیا کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔

        مورخین کے مطابق چھٹی صدی کے درمیان کچھ عرب تاجر کیرالا کے ملاباد علاقہ میں آئے۔ مورخ Henry Mievs Elliot کی کتاب The History of India  کے مطابق 630 عیسوی میں پہلے مسلم جہاز کو کیرالا ساحل پر دیکھا گیا۔ سب سے پہلی مسجد کیرالاکے تھیر شور ضلع میں 62 عیسوی میں واقع  ’’ چیرامان جمعہ‘‘ مسجد واقع ہے۔ اس مسجد کو ہندوستان پر اسلام کی پہلی چھاپ کے طور پر بھی مانا جاتا ہے اسے ایک عرب تاجر مالک ابن دینار نے بنوایا۔

        مغلیہ دور مسلمانوں کی خوشحالی کا دور تھا اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی مغلیہ دور میں خوش تھے لیکن دعوتِ الی اﷲاور اس کی ذمہ داریوں سے مغلیہ حکمرانوں نے راہِ غرار اختیار کی لیکن اس دور میں دعوت الی اﷲ کا کام وقت کے بزرگوں اور ولی اﷲ نے انجام دیا۔

        پھر انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھا اور مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچایا اور جاتے وقت نفرت کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کر کے چلے گئے۔

        موجودہ حکومت میں ملک عزیز کے مسلمانوں کی حالت انتہائی خراب ہے ہر طرف مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے یہاں تک کہ اب اس ملک میں ایک مسلمان اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے۔(Mob Lynching) افراد کا قتل جیسے واقعات نے صرِف برادرانِ وطن کو نہیں بلکہ تمام عالمی برادری کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔

        آج ہر طرف مسلمانوں کے خلاف Propaganda   کیا جارہا ہے کہ مسلمان بہت خراب ہیں۔ طابعین اور طبعہ طابعین کے دور میں کہا جاتا تھا کہ کچھ مسلمان خراب ہیں جبکہ آج کہا جاتا ہے کہ سارے مسلمان خراب ہیں۔

        دعوت الی اﷲ کا کام آج کے دور میں مزید اہمیت کا حامل ہے تمام امت مسلمہ کو بغیر تاخیر کئے اسطرف متوجہ ہونا ہوگا۔ بقول شاعر

دامن کو زرا دیکھ زرا بند قُبا دیکھ

برادرانِ وطن کو دعوتِ الی اﷲ دینے میں مفید نکات

        ۱) سب سے پہلے ہمیں برادرانِ وطن کے سامنے ایک نمونہ بننا ہوگا ہمیں سب سے پہلے صدق دل کے ساتھ دین حق پر خود ایمان لانا ہوگا۔حضرات انبیاء اکرام ؑ جس حق کی دعوت دیتے تھے پہلے اُس پر خود ایمان لاتے تھے۔

        ’’  رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کے رب کی جانب سے اس پر اتاری گئی۔ ‘‘  ( البقرہ 285: )

اس حق پر ایمان لانے کے بعد جو چیزیں اس کے خلاف ہوں خواہ وہ قوم و قبیلہ کی عصبیت ہو یا آباو اجداد کی پیروی یا اپنا ذاتی مفاد ہو سب سے دست بردار ہونے کے لئے انھوں نے اپنے آپ کی پیش کیا اور  ’’  اَنَا اَوَّلُ الْمُومِنِیْنَ اَنَا اَوَّلُالْمُسلِمیْن ‘‘  (میں پہلا مومن ، میں پہلا مسلم) کہتے ہوئے انھوں نے پہلے خود دین پر عمل کیا یہ نہیں ہوا کہ خود تو کنارے کھڑے رہے اور دوسروں کو دین پر عمل کرنے کو کہا۔

        ۲) ہر قسم کی قومی اور گروہی عصبیت سے بالا تر ہو کر دعوت الی اﷲ کا کام کیا جائے نہ کسی قوم کی دشمنی ہمیں اس حق سے متحرف کر سکے جسکے ہم داعی ہیں اور نہ کِسی قوم کی حمایت ۔

        ’’  اے ایمان والوں ! اﷲ کے لئے حق شہادت دینے والے بنو اور کِسی قوم کی مخالفت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے ہٹ جائو۔(سورۃ المائدہ 8: )

        اسی طرح سورۃ النساء 135  میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ   ’’  اے ایمان والو حق کے برپا کرنے والے بنو اﷲ کے لئے گواہی دیتے ہوئے اگر چہ تمہارے اور تمہارے والدین اور اقرباء کے خلاف ہی کیوں نہ پڑے۔‘‘  (سورۃ انساء 135: )

        جنگ بدر کے دوران کئی صحابہ اپنے ہی رشتہ داروں کے خلاف لڑے۔ کوئی اپنے والد کے خلاف تو کوئی اپنے بھائی کے خلاف لیکن حق کو برپا کرنے میں کسی چیز نے انھیں نہیں روکا۔

        ۳) دعوتِ الی اﷲ کے لئے مرتے دم تک اپنی اصلاح آپ کرتے رہنا چاہئے جِسکے لئے دین کا عِلم حاصل کرنا اور اُس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔

        ۴) تم بہترین امّت ہو جو لوگوں کے لئے برپا کئے گئے ہو۔ نیکی کا حکم دیتے ہوئے برائی سے روکتے ہوئے اور اﷲ پر ایمان لاتے ہوئے۔۔۔۔( آلِ عمران ۱۱۰)

        اِس آیت سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہیکہ دعوتِ دین صرف مردوں کیلئے نہیں بلکہ عورتوں کا بھی فریضہ ہے عورتیں بھی کئی طرح سے دعوت کا کام کر سکتی ہیں اس فریضہ کیلئے جو بھی صلاحیتیں اﷲنے انھیں دی ہیں اسکا استعمال کرسکتی ہیں اپنے حدود میں رہ کر۔عورتوں کے پاس سب سے بہتر ہتھیار زبان ہے۔ اگر کسی مسلم یا غیر مسلم خواتین کے درمیان دعوتِ دین کرنا ہو تو عورتیں جلد گھل مِل جانے کی صلاحیت کا استعمال کر سکتی ہیں۔ تاریخ میں کئی ایسی خواتین ہیں جنھوں نے دعوتِ دین کا کام کیا جس میں ماں عائشہؓ سے لے کر طابعین طبعہ طابعین یہاں تک کہ آج تک خواتین کے ذریعہ دعوتِ دین کے فریضہ کو انجام دینا شروع ہے۔

        ۵)  دعوتِ دین میں صبر ایک کار گر ہتھیار ہوتا ہے۔ آپؐ صبر کی ایک اعلیٰ مثال تھے۔ آپؐ کو دعوت دین کا جو کام دیا گیا۔ آپؐ نے اسے انتہائی اہم رول ادا کیا اور بڑے درجہ کے مبلغ بنے دنیا میں آپ ؐ سے بڑا مبلغ کوئی نہ گذرا یونہی آپؐ کا میاب مبلغ نہیں بنے لوگوں نے آپؐ کو بُرا بھلا کہا ۔ ہر قسم کی تکلیف دی آپؐ پر پتھر برسائے اور آپؐ کے ماننے والوں کو بھی ہر طرح سے پریشان کیا۔ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپؐسے پوچھا ’’ یا رسول ﷲ کیا احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن آپؐ پر آیا ہے۔‘‘  آپ نے فرمایا  ’’جب میں نے طائف والوں کو دعوت دین دی اور انھوں نے یہ بات نہیں مانی تو اﷲ نے میرے پاس پہاڑ کے فرشتے کو بھیجا اُس نے کہا کہ اﷲ نے تمام باتیں سُن لیں ہیں آگر آپؐ چاہیں تو ان طائف والوں کو دو پہاڑوں کے بیچ میں رکھ کر پیس دوں تو میںؐ نے اس فرشتہ سے کہا کہ نہیں ان کی نسلوں میں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو صِرف ایک اﷲ کو مانیں گے اور کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔‘‘

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

دعا مانگی اِلٰہی قوم کو چشم بصیرت دے

اِلٰہی رحم کران پر انھیں نورِ ہدایت دے

جہالت ہی نہ رکھاہے صداقت کے خلاف ان کو

بیچارے بے خبر انجان ہیں کردے معاف اِنکو

ایک داعی کو چاہئے کہ وہ صبر کا دامن نہ چھوڑے اور ہر حال میں انتھک کوشش کرتا رہے کِسی کی مخالفت یا ملامت کے اندیشہ سے اس میں کوئی چیز کم نہ کی جائے۔ اور ہمیشہ دعوت الی اﷲکے لئے کوشان رہا جائے۔

۶) دعوت الی اﷲ کے دوران یہ نہ کہاجائے کہ ہم اُن سے بہترہیں اور وہ کچھ نہیں۔

۷) دعوت الی اﷲ کے دوران غیر مسلم شخص کو اسلام اور اُس کے مذہب سے تعلق رکھنے والے یکساں عناصر کے متعلق آگاہ کروانا چاہئے۔ جیسے اگر وہ شخص عیسائی ہو تو عیسائیت اور اسلام کے درمیان یکسانیت سے آگاہی۔

۸) اُس شخص کو قرآن کے Scientific Facts کی تفصیل بتائیں۔

۹) اگر اﷲ سبحان و تعالیٰ نے کوئی بھی صلاحیت دی ہے جیسے لکھنے کی یا بولنے کی تو خاص طور پر اسلام کی صحیح تصویر ان صلاحیتوں کا استعمال کر کے پیش کرنے کی کوشش کریں۔

۱۰) خاص کر پڑھا لکھا طبقہ جو کہ Teaching   یا Public Speech   سے جڑے ہیں ایسے لوگوں کو اﷲ نے بہت اچھا موقع عطا کیا ہے وہ اپنے Lecture   میں اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کر سکتے ہیں اساتذہ سائنسی نقطہ نظر سے قرآن کی تعلیمات کے مطابق Discuss کر سکتے ہیں۔ یا انبیاء ،صحابہ اور صلف صالحین کے واقعات بیان کر سکتے ہیں۔

        ۱۱) چھوٹے چھوٹے کتابچہ اور قرآن بطور تحائف غیر مسلمانوں کو دے سکتے ہیں۔

        ۱۲)اگر کوئی دین کا عِلم نہیں رکھتا اور نہ ہی کوئی صلاحیت ہے تو کم از کم کِسی عالم سے اس شخص کو مِلا دے۔

        ۱۳) تعلیمی اعتبار سے پچھڑے ہوئے مسلمانوں کے محلوں میں درس، تدریس کا انتظام کیا جائے۔

        ۱۴) دین سے دور مسلمانوں کو غیر مسلمانوں کو جب اپنی تقریبات میں مدعو کریں تو درس و تدریس کا انتظام کیا جائے جِس سے کہ اُن کی رہنمائی کی جائے۔

        ۱۵) آج کل ذرائع ابلاغ (Social Media) ایک بہت بڑی نعمت ہے جسکا استعمال کر کے Islamic Concept کو عام کیا جا سکتا ہے۔

        ۱۶)  اﷲ سے دعا کرتے ر ہیں کہ اﷲ اس شخص کو ہدایت دے کیونکہ اﷲ تعالیٰ سورۃ القصص آیت 56 میں فرماتے ہیں۔   ’’ (اے محمدؐ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اﷲ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانیوالوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘

        ۱۷)  داعی الی اﷲ کو چاہئے کہ وہ دامے درمے قد سے سخنے اس فریضے کو انجام دیتا رہے۔ ہدایت دینے والی ذات صِرف اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ مختصر اً یہ کہ دعوتِ الی اﷲ کے کام میں سورہ نحل 135 کے اصولوں کو مدِ نظر رکھا جائے۔

        فرمایا گیا  ’’ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجئے ، حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور مباحثہ کیجئے تو ایسے طریقہ پر جو انتہائی بھلا ہو۔‘‘  اس آیت سے ہمیں تین اصولی ہدایات ملتی ہیں۔

        ۱) دعوت،حکمت کے ساتھ دی جائے۔

        ۲) نصیحت ، عمدہ انداز میں کی جائے۔

   ۳) مباحثہ، بھلے طریقے پر کیا جائے۔

برادرانِ وطن میں دعوتِ الی اﷲ دینے میں رکاوٹیں

        ۱)  پہلے کے دور میں صرف دعوت اسلام دی جاتی تھی جبکہ آج کے دور میں دعوت اسلام کے ساتھ اسلام کی غلط فہمیوں کو بھی دور کرنا پڑتا ہے۔

        ۲)  مسلمانوں کے خلاف پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کے باعث برادرانِ وطن داعی الی اﷲ سے تعلقات قائم کرنا نہیں چاہتے۔

        ۳)  عِلم و حکمت کی کمی   :   دعوتِ الی اﷲ کا فریضہ انجام دیتے وقت عِلم و حکمت بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں عِلم و حکمت کی کمی دعوت الی اﷲ کا کام انجام دینے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

        ۴)  نظم و ضبط اور Team Work   کی کمی  :   کئی بار نظم و ضبط کی کمی دعوتِ الی اﷲ میں رکاوٹ بن جاتی ہے یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو منظم طریقہ سے Team Work   بناکر کرنا چاہئے۔

        ’’  اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے۔‘‘(سورہ آلِ عمران104: )

 دعوتِ الی اﷲ دینے کے نتائج  :

        ایک مرتبہ آپ ؐ نے علی ؓ کو دعوت دین کے لئے ایک قوم کی طرف بھیجا اور کہا کہ اے علی تم ایک قوم کی طرف جا رہے ہو سب سے پہلے انھیں دعوتِ اسلام دینا کیونکہ اگر ایک شخص بھی تیرے ہاتھوں ایمان لائے تو سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

        اگر دعوتِ الی اﷲدینے کی وجہہ سے کوئی ایک شخص ایمان لائے اور اُس کی نسلوں میں بھی مسلمان ہوں تو اس سے بہتر کیا ہوگا کہ اُس داعی الی اﷲ کو ہر نسل کے مسلمان ہونے کا ثوابِ جاریہ مِلتا رہے۔

        یومِ حشر میں جب اعمال کا حساب لیا جائیگا تب غیر مسلم کہے گے کہ یہ شخص میرا دوست تھا مجھ سے تجارتی تعلقات تھے۔ روزانہ مجھ سے ملتا تھا لیکن اس نے مجھے کبھی بھی دین کی دعوت نہ دی کبھی مجھے قرآن و سنت کی طرف نہ بلایا۔  ’’ بے شک اﷲ اُسکے فرشتے آسمانی مخلوقات زمینی مخلوقات حتیٰ کہ بِلوں میں رہنے والی چیوٹیاں اور سمندر میں رہنے والی مچھلیاں اُس شخص کے لئے دعا ئے خیر کرتے ہیںجو انسانوں کو خیر کی طرف بلائے۔‘‘

خواہ ہی ہمارے ذاتی اعمال کتنے ہی اچھے ہوں ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ اگر ہم نے اگر انسانوں کو خیر کی طر ف نہ بلایا تو دعوت و تبلیغ کے معاملے میں ہماری پکڑ ہو سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔