محبت میں گرفتار نوجوان نسل

محمد ساجد الرحمنٰ

میرے ایک انتہائی عزیز  کو ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ۔ دن رات   فون پرلمبی گفتگو اور صبح شام  محبوبہ کی گلی کے چکر لگاتا۔ جب بھی ملاقات ہوتی ، اُسی حسینہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پایا۔ہر وقت خیالوں کی دنیامیں رہتا۔خیر وقت گزرتا گیا  اور بات لیلیٰ مجنوں کے گھر والوں تک جا پہنچی ۔جب دونوں جانب بھڑکتی آگ کو دیکھا تو مزاحمت کے بجائے شادی کی تیاریاں شروع کر دیں گئیں۔مجھے بھی  تقریب میں مدعو کیا گیا۔ شادی کی رسم خوب دھوم دھام سے ہوئی۔پریمی جوڑےکے درمیان ہونے والی گفتگو اور انداز کو دیکھ کر تقریب میں آئے مہمان  ناصرف رشک کر رہے تھے بلکہ ان کے لیےاچھے مستقبل اور خوشحالی  کی  دعائیں مانگ رہے تھے۔ شادی کے چند ماہ  اچانک  اُس عزیز ملاقات ہوئی   اور بھابھی کے بارے میں پوچھا تو اس کے لہجے میں  چاشنی  اور آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی  بلکہ میری بات سنتے ہی افسردہ ہو گیا ۔ کافی ٹال مٹول کے بعدموصوف نے بتایا کہ لیلیٰ ناراض ہو کر میکے چلی گئی  ہے۔اس بات پر مجھے بہت حیرانی ہوئی مگر موقع کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے میں نے اُسے تسلی  دی  اور گھر کی راہ  لی۔ چند دن بعد معلوم ہوا کہ لیلیٰ کے گھر والوں کی جانب سے  دباؤ اور عدالتی احکامات کے باعث مجنوں نے طلاق کے پیپر پر سائن کر دیئے ہیں اور یوں محض 7 ماہ گزرنے کے بعد ایک پیار کی کہانی مکمل ہو گئی لیکن آخر ایسا کیا واقعہ پیش آیا کہ دونوں کی سالوں کی محبت چھوٹی چھوٹی رنجشوں کے سامنے ٹک نہ پائی۔ کافی غور وفکر اور تحقیق کرنے کے بعد اس گتھی کو سلجھانے میں مدد ملی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محبت ایک فطری عمل ہے اور ہمارے دین اسلام  سے محبت کا گہرا رشتہ ہے۔ اخوت ،رواداری اورایثار محبت کے  اہم جزو ہیں لیکن دور حاضر میں پیار  یا محبت جیسے پاکیزہ رشتے میں  بہت جلدی دراڑیں پڑ  جاتی ہیں۔ پیار کرنے والوں اورایک دوسر ے پر اپنی جان نچھاور کرنے والوں کی شادیوں  کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔شادی کے بعد  کی بحث سے پہلے  اگرمحبت کا جائزہ لیں   تواس میں اخوت ، رواداری اور ایثار  کے بجائے فلمی ڈائیلاگ  اور تحفے تحائف  کا زیادہ عمل دخل ہو تا ہے۔دونوں  پریمی یہ سمجھتے ہیں کہ شادی کے بعد  زندگی  کسی  ڈرامے یا فلم کے کردار کی طرح ہنسی خوشی گزر جائے گی لیکن حقیقت اس سے بالکل برعکس  ہوتی ہے۔ چند دنوں میں پروان چڑھنے والی  محبت کے نتائج کا اندازہ آپ اس بات سے لگا  سکتے ہیں کہ ضلع راولپنڈی کی 31 فیملی اور سول عدالتوں نے رواں سال کے پہلے 5 ماہ یکم جنوری سے 31 مئی تک مجموعی طور پر 1794 خواتین کے حق میں طلاق کی ڈگریاں جاری کیں۔ طلاق حاصل کرنے والی خواتین میں پسند کی شادیاں کرنے والی خواتین کی اکثریت ہے۔ان کی یہ شادیاں 4 ماہ سے ایک سال میں ہی ناکام ہوگئیں جبکہ اس عرصے میں مجموعی طور پر 2693 خواتین نے طلاق، حق مہر، خرچہ ،سامان جہیز کی واپسی، بچوں کی حوالگی کے مقدمات درج کرائے۔ پہلے 5 ماہ میں مجموعی طور پر 118 خواتین گھروں سے بھاگ کر دارالامان، دارالفلاح پناہ کے لئے گئیں، اس سال ضلع بھر میں طلاق کی شرح میں اب تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

تحریر کا مقصد محبت کی شادی  کو غلط  ثابت کرنا نہیں بلکہ دور حاضر میں  شادی کے بعد پیش آنے والے مسائل  کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں محبت کے شکار نوجوان خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں لیکن شادی ہونے کے بعد  جب ان کے کندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ پڑتا ہے تو حقیقی زندگی ان کے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔ اگر خواتین کا جائزہ لیں  تو  محبت میں  بغیر سوچے سمجھے ناجانے کیسے کیسے دعوے کیے جاتے ہیں مثلاً تمہارے ساتھ جھونپڑی میں رہ لوں  گی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ دعوے اکثر  اس وقت کیے جاتے ہیں جب لڑکی کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں جبکہ نوجوان کسی مڈل کلاس گھرانے کا چشم وچراغ ہو۔گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے بعد چاند تارے  توڑنے کے دعوے کرنے والوں  کومحض دن میں تارے نظر آتےہیں اور چند دن بعد ہی  دونوں کا ایک ساتھ رہنا محال ہو جاتا ہے کیونکہ لڑکی کی ضروریات کو پورا کرنا اس مڈل کلاس مجنوں  کے بس میں  نہیں ہوتا اور بات  طلاق تک جا پہنچی تھی اور  یوں لڑکی باقی ماندہ زندگی دار الامان اور دیگر فلاحی اداروں میں  تنگ دستی اورکسمپرسی کی حالت میں گزر جاتی ہے۔

شادی  میں ناکامی کی ایک اور وجہ  محبت کے آغاز میں دونوں پریمی خودکو بے عیب سمجھتے ہیں  اور ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کونظر انداز کر دیتے ہیں لیکن شادی کے بعد  قوت براداشت نہ ہونے  کے باعث نفرتیں جنم لینا  شروع کر دیتی ہیں ۔ اکثر نوجوانوں کی محبت کی بنیاد ہی جھوٹ پر ٹکی ہو تی ہے۔شادی کی خاطراپنی حیثیت سے بڑھ کر بلندو بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔مثلاًبطور سیلز مین کام کرنے والا خود کو کسی بڑی کمپنی کا منیجر بتاتا ہے۔لڑکی کے گھر والے بھی ہنسی خوشی بیاہ کر دیتے ہیں لیکن  کچھ عرصے بعد بہت ہی بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ مشکلات یہاں ختم  نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہیں ۔ پاکستانی معاشرے میں طلاق یافتہ خواتین  اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ زیادہ تر کیسز میں تو عورت ہی کو ذمے دار ٹھہرا یا جاتا ہے۔ طلاق کے بعد نسبتاً مرد  کے بجائے عورت کو دوسری شادی  کے لیے کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس ساری بحث و تمحیص کا مقصد  نوجوان  نسل کو یہ باور کروانا ہے کہ خیالی دنیا سے نکل کر حقیقت کو اپنائیں۔ عفو درگزر سے کام لیں  اور بلند وبانگ دعوؤں سے پرہیز کریں۔ رشتوں میں  انا کو آڑے مت آنے دیں ، خاص طور پر محبّت کے رشتے کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کر یں کیونکہ صرف طلاق ہی تمام تر مسائل کا حل نہیں ہے۔­

با شندگانِ شہر سے پو چھو ں گا ایک دن

کیو ں کر محبتو ں میں، محبت کا کال ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔