سخن وری میرے دل کی زبان تنہائی

جمالؔ کاکوی

سخن وری میرے دل کی زبان تنہائی

خیال خواب کی ہے ترجمان تنہائی

جہاں میں کوئی نہیں میرا محسن و غم خوار

بنی ہے دوست ہوئی مہربان تنہائی

میں ڈر کے بیٹھا ہوں سب کی نگاہ سے چھپ کے

پناہ گاہ ہے جائے امان تنہائی

دل ہے ایک مگراس کے مکیں ہزاروں ہیں

ہوئی ہزاروں کی ہے قدردان تنہائی

یہی سراغ ملا ہے ہمارے ہونے کا

خیال وخواب یقیں اور گمان تنہائی

کوئی بعید نہیں کہ اعزازملاجائے

جو دے رہاہوں یہاں امتحان تنہائی

سبھی ساتھ مرے چھوڑ کر کہاں جاؤں

سمایا جس میں ہے سارا جہان تنہائی

یہ حرف حرف سے خشبو کہاں سے آتی ہے

کشید کر کے بھرے عطردان تنہائی

فلک سے اب بھی صحیفے جمالؔ آتے ہیں

عطائے خاص ہوئی ہے دیوان تنہائی

تبصرے بند ہیں۔