دید سعید

سہیل بشیر کار

ہر مسلمان شعور کو پاتے ہی اپنے دل میں ایک خواہش کو جنم دیتا  ہے. خواہش کعبتہ اللہ کے دیدار کی.. خواہش روضہ اطہر پر حاضری کی. اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ ہر روز رب سے دعا مانگتا ہے، اس سرزمین سے ہر مسلمان کا عقیدت کا رشتہ ہے۔ کیوں نہ ہو. یہاں اللہ کا گھر ہے۔ نبی رحمتﷺآرام فرمارہے ہیں، یہاں اصحاب رسول ﷺ کاآخری مسکن ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے انسان کو جینے کا طریقہ ملا۔ حج اسلام کا بنیادی رْکن ہے۔ جو کہ چند شرائط کے ساتھ اْمت کے ہر فرد پر فرض ہے۔ جس کسی کی بھی حاضری لگی، بنا برکت سمیٹے نہیں لوٹا. اس گھر سے خالی ہاتھ بس بدنصیب ہی لوٹے. جو شخص شعور کی آمادگی کے ساتھ اس منزل کی اور اپنا رخت سفر باندھتا ہے وہ بیش بہا خزانہ ساتھ لیکر لوٹتا ہے۔ بہت سے زائرین حرم نے حرم کا سفرنامہ لکھا جس کو لوگوں نے بہت سراہا. ہر سفر نامے کی اپنی اہمیت ہے۔ ان سفرناموں  کے مطالعہ سے ایک طرف حاضری کا شوق پیدا ہوتا تو دوسری طرف انتہائی  اہم معلومات بھی فراہم ہوتی ہیں . اسی طرح کا ایک سفری احوال ’’دید سعید‘‘ نوجوان داعی اور قلم کار برادر شجاعت حسینی کا ’’حرمین کاالبم‘‘ ہے۔ 80 صفحات کی یہ کتاب مصنف کا حج کا سفر نامہ تو نہیں لیکن حرمین کا خوبصورت البم ہے۔ بہت سے واقعات اور جگہوں کو صاحب قلم  خوبصورت الفاظ کا قالب دینے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف پوری تیاری کے ساتھ حرمین گئے تھے۔ وہاں جانے سے پہلے انہوں نے حج کی کتابوں کے علاوہ سیرت پاک اور تاریخ کا اچھا خاصا مطالعہ کیا ہے۔ مصنف نے جن تصاویر کو الفاظ کا قالب دیا ہے وہ الفاظ دل سے لکھے گئے معلوم ہوتے ہیں۔ حرم میں داخل ہونے والی تصویر اسطرح کھینچتے ہیں :

’’رات ۳۰:۱  بج رہا تھے۔ ہم نے ہوٹل میں قدم رکھا۔ یہاں کا ٹھندا ماحول اور آرام دہ بیڈس بھر پور نیند کی دعوت دے رہے تھے۔ عام سفر ہوتا تو شائد قدم رکھتے ہی نیند کی آغوش میں پہنچ جاتے۔ لیکن یہاں سب کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ عمر بھر کی تمنا جو برآئی۔ یقین نہیں آتا کہ ہم حرم کعبہ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ سالہا سال جس کی سمت رخ کرکے عبادات، دعا و مناجات کا اہتمام کرتے رہے، آج اسی مرکز روح و جاں سے کچھ پل کی دوری پر کھڑاہونے کا احساس ہی سب کو نیند اور تھکن بھلا کرتازہ دم کردینے کیلئے کافی تھا۔رات دو بجے حرم کعبہ کی سمت روانہ ہوئے۔ مکہ کلاک ٹاور کی رونقیں دور سے نظر آرہی تھیں، لیکن نہ انہیں دیکھ کر کوئی حیرت، نہ نظروں کو اس چکا چوند سے کوئی سروکار۔ نظریں تو بس مادی چکا چوند سے پاک، کالے غلاف سے ڈھکی، ظاہری حسن سے دور، کالے پتھروں کی چھوٹی سی منفرد عمارت کے دید کی منتظر اور متمنی تھیں ‘‘۔ ( صفحہ ۱۱)

آگے اپنی کیفیت کو یوں بیان کرتے ہیں :

’’ہر قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچتے ہوئے کہ اب دوسرا قدم اٹھایا جائے یا کچھ دیر ٹھہرلیا جائے تاکہ دل کی دھڑکنیں نارمل ہوجائیں۔ تاکہ انکھوں کی سوتوں سے جو پانی بہا چاہتا ہے اسے بھی کچھ دیر قرار آجائے۔ تاکہ بکھرتے سمٹتے دعاوں کے ذخیرہ کو ذہن کی سلوٹیں کچھ ٹھہرکر یکجا کرلیں ‘‘۔ ( صفحہ 12)

مصنف اپنے عمرہ کا بیان جب کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کوئی فوٹوگرافر ہیں اور قاری کے آنکھوں کے سامنے تھری ڈی تصاویر پیش کررہا ہے.   مصنف جہاں جہاں جاتے ہیں مانو قاری بھی ساتھ ساتھ وہیں پہنچ جاتا ہے۔ ہر عمل کی روح اور اس میں چھپے گہرے معنی کو سامنے لانے کی مصنف کی قابل ستائش کوشش پوری کتاب میں رہی ہے۔ طواف کے بارے میں دیکھئے کیا لکھتے ہیں :

’’طواف بندوں کے ہجوم سے گزر کر خدا تک رسائی کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ یہ ایک پیغام بھی ہے کہ قرب الٰہی کا انعام پانا ہوتو بندوں کے ہجوم سے گزرنا سیکھو۔ ان کے دھکے کھا کران کی خدمت کا جذبہ بیدار کرو‘‘۔

اگرچہ حج اور عمرہ میں فناء فی اللہ کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے لیکن اسلام ایسا دین ہے جو انسان کو رہبانیت سے دور رکھتا ہے۔ مصنف گوشہ نشینی پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مردم بیزار لوگ یہاں بہت ہار جاتے ہیں۔ وہ مطاف کے بجائے حرم کا کوئی خاموش گوشہ عبادت کیلئے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ـ‘‘(صفحہ 13)

طواف، مقام ابراہیم سے گزر کر ’’ ابراھیمی مقام‘‘ تک پہنچنے کی راہ ہے۔ یہاں صرف نقش قدم کا نظارہ نہیں۔ نقش قدم کی تقلید کا عہد بھی ہوتا ہے۔ براھیمی سیرت کے نقوش دیکھ کر براھیمی نظر (وژن) کی تمنا امڈ آتی ہے۔ مگر انسان کی کمزوری یہ ہے   ؎

براہیمی نظر پیدا بڑی مشکل سے ہوتی ہے

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بناتی ہے تصویریں

آج جب ہر طرف عالم اسلام میں مایوس ہی مایوسی ہے۔ ایسے میں مصنف کا سفر نامہ اْمت کو اس مایوسی سے نکلنے کی راہ دکھاتا ہے۔

’’شفاف زمزم کے دو گھونٹ جسم کو ریچارج کرنے کیلئے کافی ہیں۔ پانی کی یہ بوندیں خاموش پیغام کا ایک سمندر ہیں۔ ظاہری اسباب کے خاتمہ پر غیر متوقع رحمتوں کا پیام۔ ‘‘ (صفحہ 14 )

مصنف مایوسی کے اس دور میں یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں۔

’’ہر فرد ’’ مایوسی  میں امید کی کرن ‘‘ کا رول ادا کرتا پھرے تب یہ لگتا ہے کہ اس مایوس انسانیت کو زمزم کے دوگھونٹ پلاتا چلوں تاکہ سیرت ہاجرہ کا تاریخ ساز روشن سبق دل و دماغ پر نقش بن کرچھا جاتا۔ ‘‘

اپنے البم میں برداشت اور اتحاد و انفاق کی تصویر اسطرح کھینچتے ہیں :

’’یہاں ہر روایتی فقہ پر عمل کرنے کیلئے آزاد ہے۔ (صرف شرک و بدعات پر مشتمل غیر ضروری حرکتوں کو جبراً روکا جاتا ہے)لوگ بھی اس کلچر میں ڈوب جاتے ہیں۔ جو لوگ اپنے ملک میں مسجد میں کسی کا کھلا سر دیکھتے ہی بورئیے کی تاج پوشی عین ایمان کا تقاضا سمجھتے ہیں ان کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ کیا اوپری احرام سے آزاد کسی افریقی کو نیا کْرتا سِلا کر پہنائے؟ یا شالیں اڑھالیں ؟‘‘

عزیزی شجاعت صاحب اپنی کتاب میں میدان عرفات کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’یہی وہ مقام ہے جہاں ابراہیم ؑ نے حج اور اس کی حکمتوں کی معرفت پائی۔ جہاں آدم ؑ نے قبولیت دعا کا عرفان اور رحمت الٰہی کا تحفہ پایا۔ اور جہاں سے دنیا نے انسانی وقار، عظمت و حقوق کی پاسداری کا درس، حجتہ الوداع کے بین الاقوامی چارٹر سے سیکھا۔ یہ اپنے مشن کی پہچان، زندگی کے مقصد سے آگہی، واقفیت ذات، علم و عرفاں، سیکھنے اور جاننے کا مقام ہے۔ یعنی مقام معرفت!‘‘۔ ( صفحہ 28 )

البم میں مزدلفہ کی تصویر کچھ یوں ملتی ہے:

’’شیطان سے پنجہ آزمائی کیلئے ہتھیار (کنکر)بھی آج رات مزدلفہ میں جمع کرنے ہیں۔ باریک کنکریاں ابھی سمیٹ ہی رہا تھا کہ ابلیس نے اکسایا، میری فرعونی طاقت کے مقابل تمہاری معمولی کنکریاں ؟ ہوش میں آو، چلو اپنے نفس کو ہی ٹٹول لینا، خوب جان لو گے کہ میرے ترکش میں کیسے کیسے تیر ہیں۔ تم جانتے بھی ہو میرے بازو کیسی کیسی ہلاکت خیز یوں سے لدے ہیں، بھلا ان ننھی کنکریوں کا میری غارتگری سے کیسا مقابلہ؟‘‘ (صفحہ 30)

مزید لکھتے ہیں :

’’ابلیسی وسوسہ نے شعور کے پردے کھولے۔ دل نے گواہی دی اسی مزدلفہ کے دامن میں وادی محشرمیں پھیلی کنکریاں شیطانی اکساہٹوں کا کرارا جواب ہے یہ وادی گواہ ہے یہی کنکریاں رب کے حکم سے کبھی گائڈمیزائل کا کام بھی کرچکی ہیں جس نے ابرہہ کے تکبر کو خاک میں ملا دیا تھا۔ قلب کی اس گواہی نے ابلیس کو ذلیل کرنے کے جذبات کو مزید بڑھا دیا۔ (صفحہ 30)

دین اسلام قربانی کا نام ہے۔ یہاں ہر طرح کی قربانی دینی پڑتی ہے حج میں ان قربانیوں کا مشاہدہ ہوتا ہے مصنف لکھتے ہیں ـ:

’’ایک اور قربانی جو عملی مناسک کا حصہ نہ سہی لیکن عملاً ناگزیر ہے وہ ہے،اناکی قربانی۔ ۔ ۔ جن کے تن برینڈس (Brands)سے سجے ہوتے ہیں آج پسینہ کی بو اور خاک و گرد سے اٹے احرام ان کا پیر ہن ہیں۔ ماسٹر ہیڈرومس کے کشادہ ماحول میں جن کی آنکھ نیند سے ہمکنار ہوتی ہے ان کیلئے عین اتنا ہی اسپیس موجود ہے جتنا قبر کی صورت میں ان کے مقدر میں لکھا ہے۔ جنھیں شوز کے پسندیدہ برینڈ کی معمولی تبدیلی سے پیروں کے پھٹے جانے کا ڈر ہوتا ہے ان پر لازم ہے کہ دوپٹی چپل کی حد نہ پھلانگیں۔ جن کی موجودگی محفل کو پیرس کے پر فیومس کی مہک سے مہکانے کیلئے کافی ہے آج بہتے پسینے کے ریلے ان کیلئے مشک وعنبر ہیں۔ منیٰ کی بستی شیطانی انا کا قبرستان ہے۔ (صفحہ 34 ‘‘)

منیٰ سے واپسی کی تصویر مصنف کے البم میں ایسی ملتی ہے:

’’پھر یہ مکین اتنے بوجھل کیوں ہیں ؟ کیوں ان کی نگاہیں ان خیموں کو ٹٹولتی ہیں ؟ کیوں انہیں یہ عارضی ٹینٹ اپنے ہوٹلوں کے عالیشان کمروں سے زیادہ عزیز ہوگئے۔ کیوں یہاں کی سخت گرمی جھیلنا دیوانہ وارچل کر اپنے تلوؤں کی جلد کھرچ دینا اور خاک آلود کپڑوں میں شب و روز بتانا انہیں گوارا ہی نہیں بلکہ شوقِ تمنّا بن چکا تھا۔ اسی لئے اس بستی نے انہیں بس چند دنوں میں دو جہاں کی دولت سے نوازا ہے۔ یہ ایک عظیم ترین احساس کی دولت ہے یہ وہ دولت ہے جس سے نہ کرنسی مشین گِن سکتی ہے نہ ویٹنگ مشین اسکے وزن کو سنبھال سکتی ہے۔ ‘‘ (صفحہ 36)

کتاب میں جہاں شہر معظم کی تصویریں ملتی ہیں وہی شہر منور کی بھی تصویریں ہیں۔ ریاض الجنہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ممبر رسول ﷺ اور روضہ رسول ﷺ کے درمیان چند اسکواعر میٹر کی وہ پاکیزہ جگہ ہے جسے رسول اکرم ﷺ نے ریاض الجنہ قرار دیا۔ جس کا قرب بھی فردوس کا احساس دلاتا ہے۔ کشمیر اور سویزرلینڈ کو آپ شوق سے جنت عرضی کہیں لیکن سچے رسول ﷺ کا سچا فرمان ہے کہ زمین پر جنت کا باغ (ریاض الجنہ ) تو بس یہی ہے ‘‘۔ (صفحہ 40 )

مصنف ریاض الجنہ کے حوالے سے زائرین سے ایک شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ہرکسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہاں دو رکعت نماز ادا کریں لیکن کچھ لوگ وہاں قضائے عمریں اور وہی پر رْکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کیسا تقویٰ اور کون سی مناجات کہ خدا کی یاد میں بندوں پر ستم۔

پروقار مسکن کے حوالے سے وہ جنت البقیع کے بارے میں لکھتے ہیں ’’اصحاب رسول ﷺ کی سادہ اور شفاف مزاجی کا عکس ہے۔ بقیع ایک جیسی مٹی اور پتھر کی ہزاروں قبریں۔ ‘‘( صفحہ ۴۱)

پھر وہ آج کے معاشرے پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’تصور کیجئے، ادھر ان سعید روحوں کا یکساں سادگی سے آراستہ پروقار مسکن اور ادھر نت نئے ڈیکوریشن سے سجے ہمارے رنگ برنگے گورستان۔ دولت، رتبہ اور بزرگی کی بے حسی اونچ، نیچ کے کھلے عکاس‘‘۔

کتاب اگرچہ مختصر ہے لیکن اس میں بیش بہا معلومات ہیں۔ انوکھا انوسٹمنٹ کے تحت وہ حضرت عثمان غنی ؓ کی ایک Investment کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’بخل کا مارا ایک یہودی، اہل مدینہ کی بنیادی ضرورت (پانی) کا استحصال کر، اپنے کنویں سے دولت سمیٹنے میں مگن تھا۔ ایک صاحب نظر نے اس کربناک صورتحال کو دیکھ کر کنویں خریدنے کی پیشکش کی وہ تیار نہ ہوا۔ آپ نے معقول معاوضہ کے عوض کنویں کی تجویز پیش کی۔ تجویز کیا تھی۔ بس ایک حکیمانہ حل تھا۔ آدھی ملکیت کے لئے وہ تیار ہوگیا۔ سودا ہوگیا۔ سوال یہ تھا کہ ادھا کنواں کیسے بانٹا جائے۔ حل یہ طے پایا کہ ہر دوسرے دن کنویں کی ملکیت بدلتی رہے۔ پہلے دن پانی کے خریدار بندے ہوتے تھے، دوسرے دن کا خریدا رب عالیٰ۔ پہلے دن جب پانی اونچے دام فروخت ہوتا تب کسی خریدار کو کنویں سے کوئی سروکار نہ ہوتا اور جس دن خدا سے سودا ہوچکا ہے اس دن بندوں کا ہجوم امڈپڑتا۔ اب یہودی کیلئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ آدھی ملکیت بھی فروخت کردے۔ عثمان غنی ؓ نے یہ سودا بھی منظور کیا۔ لیجئے کنویں کے پانی میں برکت کی مٹھاس بھی شامل ہوگئی۔ اب کنویں کے پڑوس میں باغ بھی لہلہانے لگے۔ خدا کے بندے ہی نہیں پیڑ پودے بھی سیراب ہوگئے۔ اس صاحب نظر نے انفاق کا جو چشمہ جاری کیا تھا وہ ترک دور میں پھیل کر ہزاروں

درختوں پر مشتمل عزیم و شان پروپٹی بن گیا اور آج اعلیٰ ترین کوالٹی کے کھجوروں کا وسیع ترین فارم۔ آج بھی یہ باغ عثمان بن عفانؓ کے نام پر رجسٹر ہے۔ اس کی کئی ملین ریال کی آمدنی حضرت عثمان ؓ کی ملکیت ہے جسے حکومت نے مدینہ میں ایک ہوٹل فندق عثمان بن عفان تعمیر کیا جس کی آمدنی مزید لاکھوں ریال پر مشتمل ہوگی۔ یہ سارا خزانہ آج بھی حضرت عثمان کے ذاتی اکاونٹ میں مستقل جمع ہورہا ہے اور اس اکاونٹ سے انفاق کی کئی تازہ اور شفاف نہریں مسلسل پھوٹ رہی ہیں۔ آج اس پھلتے پھولتے باغ کو دیکھ کر یہ یقین مستحکم ہوا کہ لانگ ٹرم انوسٹمنٹ حقیقت میں کیا ہوتی ہے۔ ‘‘صفحہ 46

مدینہ اہل ایمان کیلئے ہر مرحلہ میں سبق دیتا ہے یہاں کی ہر جگہ ایک تاریخ ہے۔ احد کی چوٹی، احزاب کی کھائی کے تحت لکھتے ہیں:

’’مدینہ دو تاریخ سازمعرکوں کی سرزمین بھی ہے۔ ایک فتح کے بعد نقصان سے عبارت دوسرا وقتی نقصانوں کے بعد سچی فتح۔ ایک کا تعلق پہاڑ کی چوٹیوں سے دوسرے کا خندق کی گہرائیوں سے ایک حکم عدولی پر وارننگ دوسرا اطاعت کا لازوال انعام۔ ‘‘ (صفحہ 48 )

مصنف مدینہ کی مختلف اہم مساجد مثلاً مسجد غمامہ، مسجد جمعہ، مسجد ابوبکر ؓ، مسجد عمرؓ، مسجد علیؓ، مسجد بنی بقر، مسجد اجابہ کا جامع تذکرہ کرکے ان کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔

مصنف نے کتاب اگرچہ دل سے لکھی ہے جس میں جذبات کا پہلوظاہر ہے غالب ہی ہوگااس کے باوجود کتاب میں نہایت ہی اہم معلومات ملتی ہیں زم زم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ وہ کنواں ہے جو نہ صرف حرمین بلکہ پوری دنیا کو سیراب کرتا ہے حالانکہ یہ جس سرزمین میں واقعہ ہے وہاں بارش کا سالانہ اوسط صرف 80 ملی میٹر ہے ہندوستا ن میں جہاں 800 سے 1000 ملی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہے اگر وہاں کبھی بارش کم پڑے سارے بور ویل سوکھ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس زم زم پوری دنیا کو سیراب کرتا ہے۔ زم زم کو نبی رحمت ﷺنے شِفا قرار دیا۔ عام پانی سے یہ کیسے مختلف ہے اس بارے میں مصنف نے تحقیق درج کی ہے۔ جہاں عام پانی میں سوڈیم 37.8 ملی گرام فی لیٹر ہوتا ہے وہی زم زم میں 133 ملی گرام فی لیٹر ہوتا ہے۔ اسی طرح کیلشم عام پانی میں 75.2وہیں زم زم میں 96، پوٹاشم عام پانی میں 2.7 زم زم میں 43.3، نیٹرئیٹ عام پانی میں 3.6 زم زم میں 124.8 ہوتا ہے۔ مصنف کے بقول کئی ریسرچ پیپر بتلاتے ہیں کہ زم زم کی مقدار صحت بخش پانی کی علامت ہے۔ اسی طرح مصنف حرم میں نماز، طواف اور سعی کا انداز بھی منفرد بتاتے ہیں۔ اور اس کے منیجمنٹ کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح وہاں صفیں بنتے ہیں، کس طرح بھیڑ کو Controlکیا جاتا ہے۔ امام کس جگہ کھڑا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ (21 تا 23)

مدینے کے حوالے سے دیار پاک کے بارے میں بہت ہی اہم جانکاری دی گئی ہے۔ مصنف ’’اخوت کی ٹوٹی کڑیاں ‘‘ کے زیر عنوان اس ریلوے ٹرمینل کا ذکر کرتے ہیں جو ترکی کے لوگوں نے بنایااور اسکے لئے ترکی کی عوام نے اپنے جیبیں کھالی کردی۔ افسوس یہ ریلوے لینیں صرف بارہ سال چلیں مصنف کہتے ہیں جب ہم نے اس کا مشاہدہ کیا تو اپنے کچے کان والے یا د آئے اور یہ ریلوے کی ٹوٹی پٹریاں نہیں بلکہ میری اخوت کی ٹوٹی کڑیاں محسوس ہوئیں۔ ( صفحہ 54) کتاب میں مصنف نے حرمین کی معاشرت کے بارے میں لکھا ہے کہ وہاں کے لوگ بے تکلف اور تصنہ سے عاری ہیں . ساتھ ہی اپنے معاشرے کے بارے میں دعا گو ہیں کہ ’’ خدایا ہمیں لاو لشکر والی تقریبات سے چھٹکارہ دلانا، ہمارے دلوں کو قدم قدم پر اکساتے مصنوعی ’’گاڑنز ‘‘ اور ’’پیلس‘‘ کی قید سے رہائی نصیب فرما۔ (صفحہ 43)

مصنف حج کے بارے میں اْمت مسلمہ میں پائی جانے والی دو انتہاوں کا ذکر کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ جو وقت کا فریضہ انجام نہیں دیتے اور حج نہ کرنے کیلئے شیطان انسان کو مختلف پھندوں میں پھساتا ہے اس سلسلے میں بندہ مختلف حیلے اور بہانے بناتا ہے حالانکہ ’’آنحضرت ﷺفرماتے ہیں جس شخص کو خرچ، اخراجات سواری وغیرہ بیت اللہ کے لئے میسر ہواور وہ تندرست بھی ہو پھر اس نے حج نہ کیا تو جی چاہئے وہ یہودی مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔ ‘‘(صفحہ 66 )

دوسری انتہا یہ ہے کہ لوگ ہر سال حج پر جاتے ہیں جس سے وہاں بھی بہت سے انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اْمت میں بھی کہیں اہم کام رْک جاتے ہیں۔ مصنف امام غزالی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ ان دولت مندوں میں بہت سے لوگوں کو حج پر روپئے صرف کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے وہ بار بار حج کرتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو بھوکا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور حج کرنے چلے جاتے ہیں ‘‘۔ مصنف نے کتاب کو خوبصورت ذیلی عنوانات دئے ہیں۔ مثلا محبت کا داغ، ترکوں کو اْردو نصیحت، وی ائی پی ازم کے جلوے، کرنسی مشینوں کا سالانہ نزول، پیادوں کی مستانا وی، انا کا قبرستان وغیرہ۔ کتاب میں گیارہ رنگین نقشے بھی دئے گئے ہیں۔ اور ساتھ ہی مقامات و اصطلاحات کی فہرست بھی ہے اْمید ہے کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ کتاب ہدایت پبلشیرز دہلی سے 09891051676 نمبر پر حاصل کی جاسکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔