جوشخص صبروشکر کا پیکر نہیں بنا

 جمال ؔکاکوی

جوشخص صبروشکر کا پیکر نہیں بنا

اس کے لئے سکون کا اک گھر نہیں بنا

اپنی نظر میں جیتے جی بہتر نہیں بنا

دل دے کے ان کو ان کاہی دل بر نہیں بنا

فکر ِسخن تو میں نے کیا ہے تمام عمر

طرز سخن نہ آیا میں شاعر نہیں بنا

حائل تکلفات ہیں ان کی اڑان میں

اڑتا ہوا خلا میں وہ طائر نہیں بنا

ناکام نا مراد،سخن ور نہیں ہے وہ

جس کا قلم تلوار یا نشتر نہیں بنا

مایوس کردیا اسے فصلِ بہار نے

اک نا شگفتہ گنچہ گلِ تر نہیں بنا

کل تھا غلام آج بھی نوکر بنا رہا

بیگم کے اقتدار میں شوہر نہیں بنا

امید کا چراغ جو روشن نہ کر سکا

شبنم صدف کی آنکھ میں گوہر نہیں بنا

کھل کر کبھی نہ اس نے کی میری مخالفت

جو مارے آستین تھااجگرنہیں بنا

اس نے کھنڈر کو اپنے سجایا ہے عید میں

ہوکر تباہ حال بھی کافر نہیں بنا

خادم بنا جمالؔ تو خدمت میں خیر ہے

یہ ہے اعزاز اس کا کہ سرور نہیں بنا

تبصرے بند ہیں۔