جوا: ایک سماجی برائی

آبیناز جان علی

 ذرائع ابلاغ کے توسل سے عوام کو لطف اٹھانے کے لئے، اپنی زندگی بہتر بنانے کے لئے، آنکھ بند کر کے جواکھیلنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ ایسے اشتہارات عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں کہ محض تفریح کے لئے کھیلنے سے ان کے حالات زیادہ سازگار ہوجائیں گے۔ لیکن حقیقت اس کے بر خلاف ہے۔ قماربازی کی لت لگ جانے سے زندگی جہنم سے بدتر ہو سکتی ہے۔ ماہرِ سماجیات معاشرے کو متنبہ کرتے جاتے ہیں کہ جوا خوشحالی نہیں لاتا بلکہ مستقل مفلسی میں مبتلا کردیتا ہے۔ جوا سے زندگی بہتر کیسے ہوسکتی ہے جب خدا نے اپنی کتاب میں یاد دلایا ہے:’’ اے ایمان والو!  شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی شیطان کے گندے کام ہیں۔  تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پائو۔‘‘   (۵: ۹۰)

’’شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بیر اور دشمنی ڈالوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے۔ تو کیا تم باز آئے؟‘‘  (۵:۹۱)

یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں جواری عوام کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اہلِ سیاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔  ۲۰۱۵ء؁  میں ۲۵ فی صد اہلِ موریشس جوئے باز تھے۔ ایک جواری ہفتہ میں اوسطاًسو روپے جوا میں لگاتا ہے۔ صرف لوٹو کھیلنے کے لئے ہفتے میں کم و بیش پچھتر روپے لگائے جاتے ہیں۔

کازینو، گیم ہائوس، قمار خانے اور لاٹری فروخت کرنے کی جگہیں بڑھتی جارہی ہیں۔  ۲۰۱۵ء؁ میں اعلان کیا گیا تھا کہ کھیل کے لئے کوئی اجازت نامہ نہیں دیا جائے گا پھر بھی بدیسی فٹ بال اور گھڑ دڑر کے لئے پچھتر پرمٹ دئے گئے۔ مزید شیطان اپنا جال وسیع تر کرتا جارہا ہے تاکہ انسانی بقا خطرے میں پڑجائے۔ لاٹری، لوٹو، پول، رولیٹ، پیسوں کی مشین، آن لائن بیٹنگ، ایس ایم ایس کے ذریعے جوا کھیلنا، الیکٹرانک لاٹری جیسے کھیل سے شیطان نئے نئے طریقے سامنے لاتا جا رہا ہے۔ اب گھروں میں بھی لوگ ٹی وی پروگرام تجسس و اشتیاق سے دیکھتے ہیں جہاں پیسوں کے لئے کھیلا جارہا ہے اور ایسے کھیل مقبولِ عام ہوتے جارہے ہیں۔ قماربازیوں میں شراب کو خوب بیچا جاتا ہے۔ گویا یہ دونوں نقص لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں۔ جوا اپنی آغوش میں کئی سماجی برائیوں کو یکجا کرتا ہے۔

جوا ایک ایسا سرطان ہے جو آہستہ آہستہ دھیمی آنچ میں سماج کو جلا رہا ہے۔ لیکن لوگ جوا کیوں کھیلتے ہیں ؟  جوا میں نتائج پہلے سے سامنے نہیں آتے اس لئے ایک اشتیاق اور قسمت آزمانے کا جوش پیدا ہوتا ہے۔ جوش میں خوشی و مسرت ہومحسوس ہوتا ہے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی وہ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔  خالی دماغ شیطان کا گھر ہے۔  چنانچہ جب آدمی کو کچھ نہیں سوجھتا تو وقت کی برباد ی کے لئے غلط راستے پر چل نکلتاہے۔ کچھ لوگ قرضے سے نکلنے کے لئے پیسے جیتنے کی امید سے کھیلتے ہیں۔  جو لوگ ایک بار جیت جاتے ہیں، دوسری بار اپنی تقدیر آزمانے کے لئے دوبارہ کھیلنے کے آرزومند ہوتے ہیں تاکہ کھویا ہوا پیسہ دوبارہ حاصل ہوسکے۔ دونوں صورتِ حال میں وہ ایک ایسے بھنور میں پھنس جاتے ہیں جن سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

کسی چیز کی لت پڑنے سے انسان جھوٹ بولنے لگتا ہے، قرض میں غرق رہتا ہے، چوری کرتا ہے، دوسروں سے دور رہنے لگتا ہے اور کچھ لوگ عصمت فروشی پر مجبور بھی ہوجاتے ہیں۔  دیکھا گیا ہے کہ ۵۵ فی صد مقروض ہونے کی وجہ کھیل میں پیسے لگانا ہے۔ جوا کا براہِ راست اثر خاندانی زندگی پر ہوتا ہے۔  پیسوں کے مطابق کوئی بھی بات چیت کا رخ گھر میں جواری کی طرف سے بحث و تکرار کی شکل اختیار کرتا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ خاندانی حلقے سے علیحیدگی اختیار کرنے لگتا ہے۔ اسے بس کھیل کی فکرستانے لگتی ہے۔ اس کا کھانا پینا اور راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔ اب وہ سونے کی دوائی کا محتاج ہوجاتا ہے یا ایسی دوائیوں کا سہارا لینے لگتا ہے جو اسے مصنوعی راحت دیتے ہیں۔  اس طرح قماربازی سے میاں بیوی کے رشتے میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ پیسوں کی پریشانی کے باعث وہ لوگوں سے ادھار لینے لگتا ہے۔ اس کا کام پر دھیان نہیں لگ پاتا اور وہ صرف اپنے قرضے کے بارے میں سوچتا ہے۔ قرض داروں سے بھاگنے اور منہ چھپانے کی نوبت آجاتی ہے۔  گھر والوں کو بھی ذلت اور بدنامی کا حصّے دار بننا پڑتا ہے۔ آخرکار سب تحس نحس ہوجاتا ہے۔ جوا میں مبتلاانسان اپنے خاندان، اپنے دوستوں اور اپنے معاشرے کو ساتھ لے ڈوبتا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی گھر پر بچے اور ان کے دوست بھی اسی راستے پر چل نکلتے ہیں اور ان کا بھی یہی حال ہو جاتا ہے۔

 اشتہارات اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی لوگوں کو پیسوں کے لئے کھیلنے کے لئے اکساتے ہیں۔  اب وقت آگیا ہے کہ سماج اس بیماری کے بارے میں آگاہ ہو اور عوام کو اس خطرے سے متنبہ کیا جائے کیونکہ جوا صرف ایک مخصوص عمر کے لوگ ہی نہیں کھیلتے، یا ایک سماجی طبقہ یا ایک مخصوص قوم اس کی گرفت میں نہیں ہے بلکہ کوئی بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ انسانیت کی بھلائی کی خاطر اور اپنے گھر اور بچوں کی حفاظت کے لئے عوام کو آواز اٹھانی چاہئے۔ اس کے علاوہ اپنے پیسوں کی طرف ذمے دارانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔  ہمارا مشاہرہ خدا کی طرف سے رزق ہے جس سے ہمارا  اور بیوی بچوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔  انہیں پیسوں سے ہمارے گھر کا چولھا جلتا ہے۔ چنانچہ ان پیسوں کا احترام کیا جائے اور سمجھداری اور اپنی چادر کے مطابق پیسوں کو خرچ کئے جائیں اور لالچ جیسی بری بلا سے دور رہا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔