توقع پھل کی اک سوکھے شجر سے

جمالؔ کاکوی

توقع پھل کی اک سوکھے شجر سے
کمالِ فن اور مجھ بے ہنر سے

مجھے رسوا کیا میرے جنوں نے
کوئی شکوہ نہیں اس بے خبر سے

انہیں دل سے نہ دردِ دل سے مطلب
محبت ہو گئی ہے مال وزر سے

شفاخانہ ہے عالی شان لیکن
نہیں جاتا ہوں میں لٹنے کے ڈر سے

لگا دیں گے وہ اپنی جاں کی بازی
جیالے نکلے ہیں جو اپنے گھر سے

غزل کہتا غزل پڑھتا ہوں لیکن
پریشاں ہو میں اپنی چشمِ تر

زمانہ بس مجھے سنگسار کردے
نہ کھولے گرزباں ظالم کے ڈر سے

شہید حق کبھی مرتا نہیں ہے
یہ باتیں لکھ لے کوئی آبِ زر سے

مجھے مانیں گے اہل فن سخن ور
سند مل جائے گر اس دیدہ ور سے

وطن سے جس کو الفت ہی نہیں ہے
وزارت کی وہ اک کرسی کو ترسے

وہی اڑتے ہوئے آزاد پنچھی
قفس میں آگئے ہیں بال وپر سے

مسلط سر پہ ہیں بیگم ہماری
جمالؔ بجھ گئے طوفاں کے ڈر سے

تبصرے بند ہیں۔