لگتی ہے کتنی دیر ستمگر سنگار میں

پریم ناتھ بسملؔ

لگتی ہے کتنی دیر ستمگر سنگار میں
یہ عمر کٹ نہ جائے کہیں انتظار میں

کرتے ہو کتنے ظلم و ستم ہم پہ پیار میں
دل دے کے ہم بھی مرمٹے تم پر بیکار میں

تم سے بچھڑ کے حال مرا ایسا کچھ ہوا
دل کو ملا سکوں نہ کسی بھی دیار میں

اب لوٹ کے آ جاؤ ہے یہ گھر بڑا اداس
نغمے خوشی کے گائں چلو اس بہار میں

تجھ کو تمہاری جیت مبارک ہو اے صنم
ہے جیتنے سے بڑھ کے مزہ تجھ سے ہار میں

میں ہارتا رہا ہوں سدا جیتتے ہو تم
سوچا ہے مات دے دوں تجھے اب کی بار میں

کیا تیرا دل بھی توڑ دیا ہے کسی نے آج
بیٹھا ہے غم سے چور تو کیوں اس بہار میں

سچ کہہ رہا ہوں مدبھری آنکھوں کی ہے قسم
پیتا نہیں شراب، مگر ہوں خمار میں

بسملؔ سنا رہا ہے غزل، سن رہے ہیں لوگ
کیا لطف مل رہا ہے دلِ داغدار میں

تبصرے بند ہیں۔