کون جانے آنے والا کل ہے کیا 

جمالؔ کاکوی

کون جانے آنے والا کل ہے کیا

دھوپ کیا بارش ہے کیابادل ہے کیا

جیسی بھی آئے لکچھمی آپ کی

آپ کیا جانے کہ دھن نرمل ہے کیا

خوب صورت جوتے کے شوقین ہیں

آپ کا بٹوا ہے کیا چپل ہے کیا

میں نے بھی دیکھی ہے دنیا اے جناب

جانتا ہوں سونا کیا پیتل ہے کیا

فرش پر اپنا ہے اپنا بوریا

نیتا کی کرسی سا ، یہ مانگل ہے کیا

جنتا اپنی شکتی اب منوائے گی

ووٹ کا حق رکھتی ہے نربل ہے کیا

اگلے پل کی بھی خبر جس کو نہیں

کل پہ وہ دعویٰ کرے پاگل ہے کیا

آدمیت کے لئے دن ایک سے

شکّر اپنا آپ کا منگل ہے کیا

آدمی سے آدمی ہے بے اماں

شہر ایسا، تو بھلا جنگل ہے کیا؟

گر سیاست کا سب ان سے سیکھئے

دھوکا دینا اک کلا ہے چھل ہے کیا

ہنس رہے ہیں دوسروں کو دیکھ کر

آپ کادرپن کہیں ٹوٹل ہے کیا

پی کہاں کی ،کیوں لگاتا ہے صدا

پی سے یہ میری طرح چھوٹل ہے کیا

کل کا وعدہ ہے تو مئے پیتے نہیں

شیخ جی تم سا کوئی بوتل ہے کیا

چور کہ دیتے ہیں تھانے دار کو

اے جمالؔ آپ کو سوجھل ہے کیا

تبصرے بند ہیں۔