وہ نگری شریفوں کی نگری نہیں ہے 

جمالؔ کاکوی

وہ نگری شریفوں کی نگری نہیں ہے

سلامت کسی سر کی پگڑی نہیں ہے

جفاکش ہے صاحب ڈگری نہیں ہے

مگر پھر بھی قسمت تو بگڑی نہیں ہے

مشقت سےحاصل ہوۓ تنکے دانے

کبھی زندگی ٹوٹی بکھری نہیں ہے

شاکر زمانے کا بندہ خدا کا

گردن جو جھکتی ہے اکڑی نہیں ہے

اللہ کی قدرت ہر اک شۓ سے ظاہر

کیا؟ حیرت زدہ کرتی مکڑی نہیں ہے

محور پہ اپنے زمیں گھومتی ہے

کسی کے بھی بس میں یہ چکری نہیں ہے

نہ بھاگے گا ڈر کر کسی بھیڑیے سے

اک شیر ہے جمالؔ بکری نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔