مرسی کی پر اسرار موت، پر اسرار خاموشی

قاسم سید

ہندوستان دنیا کاسب سے بڑا جمہوری ملک ہے، آئین اور جمہوری اقدار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ جب بھی انہیں خطرہ لاحق ہوا ہر شہری اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ماضی قریب میں اظہار رائے کی آزادی کو درپیش چیلنج اور ماب لنچنگ کے بڑھتے واقعات کے خلاف سول سوسائٹی نے زبردست جد وجہد کی۔ جمہوریت کے استحکام اور بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے کم وبیش ہر پارٹی خواہ سیاسی ہو یا مذہبی بیدار ومتحرک رہتی ہے،کیونکہ یہ ایک نعمت ہے، معاشرے میں کھلا پن رہتا ہے۔اختلافات کااحترام کیا جاتا ہے۔ جب بھی ان پر خطرات منڈلاتے ہیں ہم بے چین ہوجاتے ہیں۔ آمریت و فسطائیت کی دبے پاؤں آہٹ نے ہمارے کان کھڑے کردئے ہیں۔ ہم ہمیشہ ظلم کے خلاف اور مظلوم کے حامی رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم عالمی انسانی قدروں اور جمہوری نظام کی بقا میں اپنی بقا دیکھتے ہیں تو پھر آمریت اور فسطائیت کے دیگر معاملات میں خاموش کیوں ہوجاتے ہیں۔ ہم فسلطینی کاز کی حمایت کرتے ہیں لیکن حماس کے معاملے پر کچھ نہیں بولتے۔ مودی کی پالیسی کی نکتہ چینی مگر جب کوئی عرب ملک اپنا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیتا ہے تو خاموش رہتے ہیں۔ آزادی صحافت کے علمبردار ہیں اور خاشقجی کے قتل پر ایک لفظ بھی ادا نہیں ہوتا، حتیٰ کہ مصری تاریخ کے سب سے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی پراسرار موت پر بھی اظہار تعزیت سے گریز کیا جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رد عمل، معمولی لیڈروں کی موت پر تعزیت کرنے میں پیچھے نہ رہنے والے ایک ملک کے منتخب معزول صدر کی موت پر وہ جانے کیوں چپ رہتے ہیں۔ یہی مرسی جب مصری صدر کی حیثیت سے منموہن سنگھ کے دور حکومت میں ہندوستان کے سرکاری دورے پر آئے تو ہم نے میں ان کا پرتپاک والہانہ خیر مقدم کیا اور ان سے ملاقات کی کیونکہ یہ مہمان کی تعظیم اور اسلامی انسانی اقدار کا اظہار ہے۔

جب ہم اپنی مجلسوں میں اسلامی اصلاحات کے نظریہ سے غیرمسلموں، مشرکوں، ملحدوں اور خدا کے اعلی لاعلان منکروں کو بلاتے ہیں، ان کے پلکیں بچھاتے ہیں، انہیں مہمان خصوصی بناتے ہیں۔ ایسے کسی شخص کے انتقال کو فراخ دلی کے ساتھ ملک وملت کا عظیم نقصان قرار دینے میں بخالت سے کام نہیں لیتے، عالمی سطح پر بھی کسی اہم علمی وسیاسی شخصیت کی رحلت پر اپناانسانی واسلامی فریضہ ادا کرتے ہوئے اس کی موت پر اظہار افسوس کرتے ہیں توکیا مرسی بحیثیت مسلمان، بحیثیت ایک مسلم ملک کے منتخب معزول صدر چند تعزیتی کلمات کا بھی مستحق نہیں۔ یہ کسی کی حمایت یا مخالفت کا معاملہ نہیں ہے۔ ہماری اخلاقی جرأت اور ایمانی تقاضہ کا سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم کسی دباؤ کا شکار ہے، کیا ہماری مقتدر اور قابل احترام شخصیات کے سامنے کوئی مجبوری ہے، و ہ لوگ جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں، اپنی زبان پر تالا کیوں لگائے ہوئے ہیں۔ کیا داخلی اور خارجی دباؤ اتنے شدید ہیں کہ دل کی بات زبان پر نہیں لاسکتے، کیا ہمارے موقف کو مصلحت، خوف، ڈر اور نامعلوم دباؤ میں پابند گویائی کررکھا ہے۔ سوال اخوان کا نہیں۔ اخوان کے نظریات سے اختلافات کی بہت سی گنجائشیں موجود ہیں، کیا بھی جاتا ہے۔ کیا جانا چاہئے۔ ہمارے یہاں السیسی کی حمایت اور اس کے موقف کی تائید و تحفظ کرنے والے بھی ہیں۔ اس کے دربار میں حاضری دینے والے بھی موجود ہیں۔ کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ اٹھانا بھی نہیں چاہئے، یہ ہرکسی کی پسند ناپسند اور ذاتی رائے کامعاملہ ہے،اس کا سب کو حق ہے۔ یہ روادرای اور قوت برداشت کااظہار ہے۔ اگر کوئی اس پر انگلی اٹھاتا ہے تو وہ ہر لحاظ سے غلط ہے۔ مگر یہ تو معلوم ہونا چاہئے کہ خاموشی اور تکلف کی وجہ کیا ہے۔ کیا مرسی دہشت گرد تھے، کیا انہوں نے بذات خود دہشت گردانہ کارروائیاں کی تھیں، کیا ان کا دور حکومت دہشت گردی یا تشدد کی علامتی تھا۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب، ترکی، ایران تینوں ممالک کا دورہ کیا جو الگ الگ نظریات کے مطابق مملکت امور چلاتے ہیں توکیا ہم دھیرے دھیرے اخلاقی موت کی طرف بڑھ رہیں جہاں خود فیصلے نہیں لے سکتے، بلکہ اجازت اور اشاروں کے منتظرہوں۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آج اگر ہم تماش بین ہیں، ظلم اور تشدد پر خاموش ہیں، جمہوری اقتدار ونظام کو تباہ کئے جانے والوں کے بارے میں نہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اور نہیں احتجاج درج کرانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو خدانخواستہ جب کل ہمارا تماشہ بنے گا تو کوئی آگے بڑھ کر نہیں آئے گا۔ ماب لنچنگ کو جب سرکاری سرپرستی حاصل ہو اور اس پر ڈر یامصلحت کے سبب خاموشی اختیار کرلی جائے تو یہ اخلاق موت کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔ مرسی کے ساتھ السیسی نے جو کچھ کیا اس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اورہیومن رائٹس واچ نے شدید احتجاج کیا۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی آواز شامل کی اور مرسی کی موت کی غیرجانبدارانہ، آزادانہ اور منصفانہ انکوائری کامطالبہ کیا۔ مسلمانوں کے ایک طبقے کے ’نئے قبلہ وکعبہ اور نئے خلیفۃ المسلمین ‘ طیب اردوگان نے ان کی موت کو قتل بتایا اور پورے معاملے کو عالمی عدالت میں لے جانے کااعلان کیا۔ ہماری کئی برگزیدہ شخصیات نے اردوگان کو بغاوت ناکام ہونے پر مبارکبادی کے خط ارسال کئے تھے۔

کیا ہم خاموش رہ کر جبرکی حمایت تو نہیں کررہےہیں، کیا ہم اپنے ضمیر کے مجرم تو نہیں بنے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فرصت پائے ہوئے عاقبت اندیش مرسی کے بارے میں جو زبان واستعارے استعمال کررہے ہیں وہ قابل رحم ہیں۔ لیکن جمہوریت طور پر منتخب صدر کو24 میںسے 23 گھنٹوں تک روزانہ شیشے کے پنجرے میں رکھ کر ذہنی وجسمانی اذیتیں دے کر موت کی طرف دھکیلا گیا اور وہ مرعات بھی نہیں دی گئی جن کا ایک عام قیدی بھی بین الاقوامی ضابطہ کے مطابق مستحق ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسی شیشے کے پنجرے میں عدالت کے احاطہ میں مر گیا تو ہمیں اس کے بنیادی حقوق کی پامالی پر بھی رحم نہیں آتا۔ کیا ہم السیسی کے ساتھ کھڑے ہیں۔جس نے مصر میں انسانی حقوق سلب کرلی ہیں تو پھر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان میں انسانی بنیادی حقوق، اظہار رائے کی آزادی، آئین کو لاحق خطرات مخصوص طاقتوں کی طرف سے اقلیت کش پالیسیوں پر احتجاج کا جواز کیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔