ہجومی تشدد: سفاکیت کا ایک وحشت ناک سلسلہ

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

    ماب لنچنگ یعنی ہجومی تشدد کے ذریعہ بے قصوروں کے ساتھ سفاکیت ودرندگیت کا ایک سلسلہ ہے جو ہمارے ملک میں چل رہا ہے،اور وقفہ وقفہ سے انتہاء پسند غیر مسلم دلتوں اور مسلمانوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتاررہے ہیں، نہایت بے دردی کے ساتھ مارپیٹ کر انہیں ہلاک کررہے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور اب تک بہت سے مسلمان اس کا شکار ہوچکے ہیں، گاؤرکشا کے نام پر بہیمیت کا کھیل کھیلا گیا،زبردستی ”جئے شری رام“کے نعرے لگنوانے پر مجبور کیاجانے لگا اور اب بھی انسانیت کے دشمن یہ کھیل کھیلنے میں مصرو ف ہیں، جہاں کہیں انہیں مسلمان دکھائی دیتا ہے ان کے اندر کا شیطان جاگ جاتا ہے اور پھر وہ انسانیت کو شرم سارکرنے والا سلوک بے قصور مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں، جن میں اب تک بوڑھوں کو،نواجوانوں کو اور کم عمر لڑکوں کو نشانہ بنایاگیا ہے۔ اخلاق،حافظ جنید،پہلوخان اور بہت سے مسلمان ہیں جو ہجومی تشدد میں ہلاک ہوئے ہیں۔

   تازہ ترین واقعہ جھارکھنڈکے سرائے کیلاضلع میں پیش آیا،جس میں تبریز انصاری نامی نوجوان ہجومی تشدد کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکا ہے۔ گاؤں والوں نے اس کو چوری کے الزام میں پکڑااور بری طرح مارپیٹ کی،زبردستی ”جئے شری رام“ اور جئے ہنومان“ کے نعرے لگوانے پر مجبورکیا اور آخرمیں پولیس کے حوالہ کردیا جہاں بروقت علاج ومعالجہ نہ کروانے سے وہ زخموں سے جانبرنہ ہوسکا۔ جھارکھنڈبالخصوص ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ میں شروع سے سرخیوں میں ہے اور اب تک تقریبا ۲۱ لوگ وہاں بھیڑ کے تشدد سے مرچکے ہیں۔ اس دوران بعض دیگر واقعات بھی پیش آئے،دہلی کے ایک امام کوگاڑی میں سوار کچھ نوجوان آکر مارپیٹ کرنے لگے،اسی طرح ایک واقعہ مغربی بنگال کے ضلع کے ۴۲ پرگنہ کے کیننگ سے ہگلی جاتی ہوئی ٹرین بھی میں پیش آیا۔ چلتی ٹرین میں کچھ لوگ آئے اور اس میں سوار ۶۲ سالہ ٹیچرحافظ محمد شاہ رخ ہلدرسے زبردستی کرنے لگے کہ وہ جئے شری رام کا نعرہ لگائے،جب نعرہ لگانے سے انکار کیا تو مارپیٹ کر چلتی ٹرین سے دھکادے کر باہر پھینک دیا گیا،جس کی وجہ سے ٹیچرکی جان تو بچ گئی لیکن زخمی ہوگیا۔

    شمالی ہندوستان میں بالخصوص اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں اور ہجوم کے ذریعہ ڈرانے،دھمکانے اور تشدد کرنے والوں کی ایک ٹولی باضابطہ مختلف مقامات پر گشت کررہی ہے اور موقع کی تلاش میں رہ کر ظلم وستم کا معاملہ کررہی ہیں۔ اس سے پہلے جب اس طرح کے واقعات پیش آنے لگے تو بھرپور احتجاج ہوااور اس کی مذمتیں ہوئیں لیکن اس کا سلسلہ اب تک نہیں تھمابلکہ زور پکڑتے جارہا ہے۔

   بی جے پی جس نے دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے پھر سے اپنی حکومت تشکیل دی ہے،اس میں خود ایسے لیڈر موجود ہیں جن کی سخت بیانی اور دریدہ دہنی اس درجہ بڑھی ہوئی ہے کہ جو پارلیمنٹ جیسے باوقار اور پُر احترام مقام پر بھی اپنی سنگھی ذہینت کو آشکاراکئے بغیر نہیں رہ رہے ہیں اور اس ہال میں بھی زور زور سے جئے شری رام،وندے ماترم کے نعرے لگواکر اس ملک کے پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور باہر نکل کر یہی لوگ زہریلی زبان استعمال کرکے ہندومسلم نفرت کو فروغ دے رہے ہیں اور بھائی چارہ ومحبت کو دفن کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

    ان حالات میں مرکزی حکومت سے سب سے پہلامطالبہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات پر پابندی لگائے اور ظالموں، قاتلوں کے خلاف سخت قانون بنائے تاکہ انسانی جان کا تحفظ ہوسکے۔ ملک کی سالمیت محفوظ رہ سکے،اور امن وشانتی،آپستی بھائی چارگی باقی رہ سکے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ماب لنچنگ کی وجہ سے ہمارا ملک دنیا بھر میں نشانہ ئ ملامت بناہوا ہے،حکومت کے ظلم وستم پر دنیا بھر میں اظہار ِ مذمت کیا جارہا ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ امریکہ کی سالانہ رپورٹ میں گائے کے نام پر گؤرکشکوں کے ذریعے لنچنگ کے واقعات کی مذمت کی گئی۔ اور تفصیلی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی وزارت ِ خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ میں کہا کہ ہندوستان میں اقلیتی فرقوں خاص طور پرمسلمانوں پر پُرتشدد انتہاپسند گروپوں کے حملے جاری ہیں، حملے ان افواہوں پر کئے جارہے ہیں کہ متاثرین بیف کے لئے گائے فروخت کرتے ہیں یا ان کو ذبح کرتے ہیں۔

     مرکزی حکومت نیابھارت تعمیر کرنے کا بڑے زور وشور سے اعلان کرتی ہے اور اپنی ترقیاتی اسکیموں کو بیان کرتی ہے لیکن اسی کی حکومت میں جب انسان انسان سے ڈرنے اور خوف کھانے لگے اور بھیڑو ہجوم سے دہشت محسوس کرنے لگے اور اپنی جان خطرہ میں ہونے کا خدشہ اس کو پیداہوجائے تو بھلاوہ ملک کیسے ترقی کرے گا۔ غلام نبی آزاد نے پارلیمنٹ میں بڑی ہی پیاری بات کہی کہ:”مودی جی!نیو انڈیا اپنے پاس رکھئے اور پرانا ہندوستان واپس کردیجیے،وہ ہندوستان جہاں ہندو،مسلمان،سکھ،عیسائی آپس میں محبت سے رہتے تھے،جہاں اگر ایک ہندو کی آنکھ میں گھاس کا تنکہ میں اٹک جاتا تو مسلمان بے چین ہوجاتا،ہمیں وہ ہندوستان چاہیے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کی لڑائی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں، لیکن اس کو دیکھنے کے لئے لوگ ہونے چاہیے،جھارکھنڈ لنچنگ کا کارخانہ بن گیا ہے،جہاں ہر ہفتہ دلت یا مسلمان کو مارجاتا ہے،ہمیں وہی ہندوستان واپس کردیجیے جہاں تہذیب ومحبت تھی۔ “

    ہم بھی اپنے ملک کے وزیر اعظم سے یہی کہتے ہیں کہ آپ ایسے ظالموں کے خلاف سخت اقدام کیجیے۔ حکومت کو مسلم خواتین سے ہمدردی تو خوب ہے کہ وہ ان کے لئے طلاق بل پاس کروانے کے لئے پارلیمانی اجلاس کے پہلے سیشن میں ہی بل پیش کردیتی ہے،لیکن اسی حکومت کو یہ کیوں نظر نہیں آتا ہے کہ بے قصور مسلمان اور دلت مارے جارہے ہیں اور چھوٹی خبروں اور بے بنیاد افواہوں کی بناء پر ہجوم امڈ پڑکر غنڈ ہ گردی کررہا ہے،ایسوں کے خلاف کوئی سخت قانو ن کیوں نہیں بنایاجاتا تاکہ ہمارا پیارا ملک محبت والفت کا گہوارہ بنارہے اور امن وآشتی کے گلشن تروتازہ رہے۔ نفرت انگیزی کرنے والے اور سخت بیان بازی کے ذریعہ تشدد کو بھڑکانے والے لیڈروں کے خلاف بھی پابندی عائد کی جائے،کیوں کہ ان کی ہی ناسمجھیوں اور دشمنیوں کی وجہ سے پیارا بھارت قتل وخون،ظلم وستم کا میدان بنتے جارہا ہے۔ جس طرح درندوں کو دیکھ کر انسان ڈرجاتا ہے اس طرح رام وہنومان کے نعرے لگانے والوں سے لوگ خوف کھارہے ہیں، رام وہنومان کی تعلیمات تو ظلم وستم کی نہیں تھی، دنیا کے مذاہب کے پیشواؤں نے لوگوں کے ساتھ تشدد کرنے کی تعلیم نہیں دی،رام وہنومان کا نام لے کر نہ جانے لوگ کیوں ظلم وتشدد کا بازار گرم کررہے ہیں !!!

    دوسری طرف مسلمانوں کے ذمہ داروں، سیاسی،مذہبی قائدین سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ ہجومی تشدد کے خلاف مضبوط آوازاٹھائیں، ظلم کے خلاف متحدہوکر لائحہ عمل طے کریں۔ مسلمان اس ملک کا وفادار شہری اور بے لوث خدمت گذار ہے،مسلمانوں پرشک وشبہ اور ان کے خلاف زبان درازیوں پر پابندی عائد کروانے کے لئے تمام تنظیموں، جماعتوں کو متحدہ کوشش کرنی ضروری ہے۔ ارباب ِ اقتدار اور سربراہان ِ حکومت سے اس سلسلہ میں نمائندگی کریں اور ملک کی سالمیت کی بقا وتحفظ کے لئے ان سے سخت قانون سازی کا مطالبہ کریں۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس سلسلہ میں قدم اٹھایا ہے اور رانچی میں ایک زبردست احتجاجی ریالی نکالی ہے۔ خدا کرے کہ ان حضرات کی کوششیں کامیاب ہو،مظلوموں کو انصاف ملے،ظالم کیفر کردار تک پہنچے اور ملک سے ظلم کا خاتمہ ہوجائے۔

    تیسری بات مسلمانوں سے ہے کہ وہ ان حالات سے گھبرائے نہیں، یقینا حالات تشویشناک ضرورہیں، لیکن اعمال وعبادات میں بہتری لائیں، رجوع الی اللہ کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام کریں، امن ومحبت کے قیام کے لئے اپنی ذات سے محنت شروع کریں، برادران وطن سے اپنے تعلقات استوار کریں، اخلاق ومحبت کے ساتھ ان سے پیش آئیں، نفرت کی جگہ محبت کو بڑھائیں، مسلمانوں کے بارے اگر کہیں کوئی شکوک وشبہات ہوں تو ان کو دور کریں اور ملک کی حقیقی تعمیر وترقی میں مل کر کام کرنے اور اس گلشن کو سجانے کے لئے قوت وفکر کولگانے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اگر ہم اپنے ارد گرد رہنے والے غیر مسلم بھائیوں سے اپنے اچھے روابط بنائیں گے اور اعلی اخلاق وبلند کردار کا مظاہر ہ کریں گے تو ان شاء اللہ ہم نفرت کی آگ کو بجھانے والے اور محبتوں کے چراغ کوجلانے والے ہوں گے اور کچھ انتہا پسند،نفرت کے سوداگر اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔ خدا ہمار اناصر!

    چوتھی بات ان ظالموں، سفاکوں اور درندوں سے ہے کہ اس دنیا میں بھلے ہی تم قتل وغارت گری کرکے آزاد گھوم اور پھرسکتے ہو،اور قانون کی نظر سے بچ کر نکل سکتے ہو،عہدہ وحکومت کے گھمنڈ میں وحشت وبربریت کرسکتے ہو،لیکن جب خدا کی عدالت قائم ہوگی وہاں بچ نہیں سکتے،بے قصور کی تڑپتی ہوئی آہیں، مظلوم کے آنسو،اس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا،مظلوم کی آہوں سے دنیا ہی کے اندر تہ وبالاہوجاتا ہے،اس لئے اپنے پیداکرنے والے سے ڈرتے رہو،ظلم وستم کے نشے سے باہر آؤ،اپنی حکومت کے گھمنڈ کو نکال پھینکو،اور ذہن وماغ میں یہ تصور قائم کرلو کہ جس طرح تڑپاتے ہوئے تم نے اخلاق وجنید،تبریز وغیرہ کو مارا ہے کیا ان کی آہیں، کراہیں ضائع ہوجائیں گی،ان کی تکلیفیں تمہاری سکون چھین لیں گی،تمہاری زندگی کو اجیرن بنادیں گی اور تم پرایک وقت آئے گا زندہ لاش بن کر رہ جاؤگے۔ تاریخ میں بڑے بڑے ظالم وسفاک حکمران اور بادشاہ گزرے ہیں جن کے تذکرے آج عبرت کا سبق ہے،ان کا انجام اور حشر کیا ہودنیا میں اس کو پڑھ لو اور معلوم کرلو۔ خدا کی عدالت تو ضرور قائم ہوگی اور ہر ظلم کا بدلہ دیاجائے گا۔ اس سے پہلے سدھر جاؤ،سنبھل جاؤ اور اپنی روش کو بدل لو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔