اپنا رستم ہو خواہ دارا ہو

جمالؔ کاکوی

اپنا رستم ہو خواہ دارا ہو

ڈوبنے والا کیا،سہارا ہو

رب بچائے جسے وہ بچتاہے

بیچ دریا کایا کنارا ہو

موت اس کو پناہ دیتی ہے

جو غمِ زندگی کا مارا ہو

آپ اپنی نگاہ میں رکھئے

آئینے میں جو آشکارا ہو

دل کا ہم کو خیال رکھنا ہے

دل ہمارا ہو یا تمہارا ہو

تب یہ دنیا ہو ساری اک کنبہ

آدمی میں جوبھائی چاراہو

بے حسی نے وقار کھو ڈالا

چاہے بغداد یا بخارا ہو

ڈھونڈنے سے کہیں نہیں ملتا

ان کے ر خ کا جو استعارہ ہو

ہم تو اس کو جمالؔ کہتے ہیں

آئینے نے جسے سنوارا ہو

تبصرے بند ہیں۔