چشم ساقی کی مئے کا پیالہ ہے

جمالؔ کاکوی

چشم ساقی کی مئے کا پیالہ ہے

رات پر نور دن اجالہ ہے

میرا محبوب بھولہ بھالہ ہے

چاند چہرا ہے ڈھب نرالہ ہے

خانقاہ مسجدِ شیوالہ ہے

میری بستی کا بول بالا ہے

کون لانگھے کا ہند کی سرحد

پاسباں تو اٹل ہمالہ ہے

دوست گیگل کا جیسا تھا جمّن

با وفا اپنا ہر جیالہ ہے

ایسے بندوں کا احترام کرو

پاک جن کا ہر اک نیوالہ ہے

سارے دکھ کا علاج ہے اِس میں

صابروں کا مقام اعلی ہے

سچے موتی یوں ہی نہیں ملتے

میں نے ساگر بہت کھنگالہ ہے

آج ظالم کی مہربانی کیوں

دال میں کچھ تو کالہ کالہ ہے

سب نے دیکھا تھا کون قاتل ہے

سارے مجرم ہیں، لب پہ تالہ ہے

اس کی باتوں کا اعتبار نہیں

منہ کا میٹھا ہے دل کا کالا ہے

لوگ طوفاں میں کھو گئے لیکن

حوصلے نے مجھے سنبھالہ ہے

تیری ہستی جمالؔ بس اتنی

زندگی مکڑیوں کا جالہ ہے

تبصرے بند ہیں۔