دستار کسی قوم کی معیار نہیں ہے

جمال ؔکاکوی

دستار کسی قوم کی معیار نہیں ہے

دھوکاہے اگر صاحبِ کردار نہیں ہے

انساں اگر انسان کا غمخوارنہیں ہے

انسان وہ کہلانے کاحق دار نہیں ہے

میرے لئے اب مصر کا بازارنہیں ہے

کوئی بھی میرے  دل کا خریدار نہیں ہے

الفاظ کا جادو بھی بے سود ہے اے دوست

حاصل اگر شیرینیۓ گفتارنہیں ہے

دیکھا ہے وہاں ٹوٹتے ہانڈی کو شب وروز

آنگن میں جہاں بیچ کی دیوارنہیں ہے

اک سر کے جھکانے کو عبادت نہیں کہتے

اللہ کے بندوں سے اگر پیار نہیں ہے

جینے سے ہیں بیزارجو،ایسے تو ہیں لاکھوں

مرنے کوکوئی فرد بھی تیار نہیں ہے

ہم رہ کے وہاں لوٹ کے آئے ہیں وہاں سے

صحراہے جہاں سایہئ اشجار نہیں ہے

کل عید نہ ہوگی مری عید نہ ہوگی

افسوس میرے چاند کا دیدارنہیں ہے

ممکن نہیں دن آج کا ہم ساتھ گزاریں

یہ میراجمعہ ہے تیرا اتوارنہیں ہے

بزمِ سخن سے کہوجمالؔ رہے دور

آواز بھی بھونڈی ہے اداکارنہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔