اب مذہبی آزادی تاریخ کا ورق بن گئی

حفیظ نعمانی

سائنس کا یہ مسلمہ فیصلہ ہے کہ فضا میں کوئی چیز تحلیل ہوکر فنا نہیںہوتی۔ مہابھارت کی جنگ میں ہتھیاروں کی جو جھنکار ہوئی تھی وہ اب بھی گونج رہی ہے۔ تو پھر چند روز پہلے سینٹرل ہال میں کی گئی وہ تقریر جو دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد مودی جی نے سینٹرل ہال میں کی تھی وہ فضا میں کیوں نہیں گونج رہی ہوگی؟ اور اس تقریر کے ایک مہینہ کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کو حکومت ہند کیسے قبول کرلے گی؟ لیکن ان خبروں کو کیسے مسترد کرے گی جو ہر اخبار کے پہلے صفحہ کی پہلی خبر بنی کہ ایک تبریز انصاری نام کے مسلمان نوجوان کو تنہا پاکر مودی مارکہ ہندوئوں نے پکڑلیا اور اس پر چوری کا الزام لگاکر ایک کھمبے سے باندھ کر 18  گھنٹے تک ڈنڈوں سے پیٹا اور اس سے ڈنڈوں کے زور پر جے شری رام اور جے ہنومان کا جاپ کرایا لیکن مارنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا اور آخرکار وہ مرگیا۔

وزیراعظم جن کو خوش کرنے کے لئے ہر بڑے اخبار نے مسلمانوں پر لگائے گئے مظالم کی امریکی رپورٹ کو مسترد کیا ہے اس رپورٹ میں ان خبروں کے علاوہ اور کیا ہے؟ ہندوستان کی راجیہ سبھا میں کانگریس کے لیڈر غلام نبی آزاد نے تو وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ جھارکھنڈ لنچنگ اور تشدد کا کارخانہ بن گیا ہے۔ میں آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ آپ اپنا نیو انڈیا اپنے پاس رکھئے اور ہمیں پرانا ہندوستان لوٹا دیجئے۔ وہ ہندوستان جس میں محبت اور تہذیب تھی جب مسلمان اور دلت مشکل میں ہوتے تو ہندو کو بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ ہم آپ کے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کی حمایت میں ہیں لیکن یہ لوگوں کو دِکھنا بھی تو چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جو آپ کہہ رہے وہ ہم کہیں بھی نہیں دیکھ رہے ہیں۔ آزاد صاحب نے مزید کہا کہ بی جے پی لیڈر نڈا نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ ہمارا راستہ اختیار کرے۔ تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم ایک ہزار سال بھی اپوزیشن میں رہے تو بھی آپ کا راستہ اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ ہم ٹیلیویژن پر حکومت نہیں چلا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ آپ بات اچھی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں دِکھتا۔ انہوں نے کہا کہ آپ بات کرتے ہیں کہ ہم گاندھی جی کی 150  ویں سالگرہ منانے جارہے ہیں اور آپ کی ہی امیدوار گاندھی جی کے قاتل کو محب وطن کہتی ہیں اور اسے پارٹی سے نکالا بھی نہیں جاسکتا۔

امریکی رپورٹ سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں نہ ہندوستان کے مسلمانوں نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ آپ ہندوستان کی مذہبی آزادی کے متعلق اپنی رپورٹ دنیا کے سامنے رکھ دیجئے۔ اگر یہ یا کسی بھی قسم کی رپورٹ پاکستان کے خلاف ہوتی تو تین دن تک میڈیا کا موضوع بنتی۔ ہم حیران ہیں کہ مودی سرکار کے وزیر مختار عباس نقوی کو سب سے زیادہ اس رپورٹ سے تکلیف کیوں ہوئی؟ ان کو تو معلوم ہے کہ انہیں اس لئے وزیر بنایا گیا ہے کہ ہندوستان میں 20  کروڑ مسلمان ہیں ان کے اربوں روپئے کے اوقاف ہیں ان کے بزرگوں نے آٹھ سو برس اس ملک پر حکومت کی ہے ان کی تعلیم ان کی عبادت ان کی تہذیب اُن کا سماج اور ان کے درمیان مسلک کا فرق اور ان کے تہوار ایک مسلمان ہی سمجھ سکتا ہے۔

مودی مارکہ ہندو کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ جے شری رام اور جے ہنومان کہہ دو اور اس کے بعد کچھ نہیں۔ مسلمان جب اللہ اکبر اور لاالہ الااللہ کہہ لیتا ہے تو پھر اسے پانچ وقت نماز پڑھنا ہوتی ہے اور جو ہر دن پڑھی جاتی ہے رمضان کا مہینہ آئے تو روزے رکھنا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے پاک ہونا ہوتا ہے وہ دیوار پر پیشاب کی دھار مارکر پینٹ کے بٹن بند کرکے آگے نہیں جاسکتا اور اس کے بعد اسلام جو کچھ بھی پابندی لگاتا ہے وہ سب اسے پوری کرنا پڑتی ہیں۔ اور جو مسلمان ہونے کے باوجود جے شری رام اور جے ہنومان کی طرح اللہ اکبر اور اشہدان لاالہ الااللہ کہہ کر اپنے کاموں میں لگ جائے اسے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ پورا مسلمان ہے۔

مختار عباس نقوی نے اس رپورٹ کو پہلے سے تیار کیا ہوا بتایا۔ اس کا جواب اگر دینا ہوگا تو وہ دیں گے جنہوں نے رپورٹ عام کرائی ہے لیکن اتنا ہم بھی جاننا چاہتے ہیں کہ امریکہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے اپنے دوست مودی جی پر انگلی اٹھائے۔ نقوی صاحب نے کہا ہے کہ مذہبی آزادی ہندوستان کے ڈی این اے میں ہے۔ ہمیں بس اتنا عرض کرنا تھا کہ 2014 ء سے پہلے ہندوستان کے ڈی این اے میںمذہبی آزادی تھی۔ مودی جی نے سمجھ لیا کہ جب تک مذہبی آزادی رہے گی حکومت ان کے جوتے کے نیچے نہیں آسکتی اور انہوں نے تین سال کے بعد اترپردیش میں مذہبی آزادی یا سیکولرازم پر اپنے دھرم کا بلڈوزر چلانا شروع کردیا۔ انہوں نے اکھلیش یادو کو ہرا جھنڈا پکڑا دیا اور کہا کہ جب قبرستان کے لئے زمین دیتے ہو تو شمشان کے لئے بھی دو اور جب رمضان کے لئے بجلی دیتے ہو تو دیوالی کے لئے بھی دو اور حیرت کی بات ہے کہ اترپردیش کے ہر سمجھدار ہندو کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ جھوٹا الزام ہے۔ اور یہ بات مودی جی کو معلوم تھی کہ دونوں الزام جھوٹے ہیں لیکن انہوں نے سوچ سمجھ کر لگائے تھے اور ہر ہندو جانتا تھا کہ قبرستان کے لئے زمین نہیں دی ہے بلکہ صرف قبرستانوں کی حدبندی کرادی ہے تاکہ زمین مافیا قبضہ نہ کرلے اور شہر کا ہندو ہو یا گائوں کا سب جانتے ہیں کہ رمضان میں مسلمانوں کو زیادہ بجلی کی ضرورت نہیں ہوتی مگر مودی جی کو ہندوئوں کے درمیان دیوار کھڑی کرنا تھی اور انہوں نے کردی اور یہ اس کا ہی نتیجہ ہے اکھلیش یادو نے کہا تھا کہ میں بھی تو ہندو ہوں اور آج مایاوتی کہہ رہی ہیں کہ اکھلیش چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ٹکٹ کم دیئے جائیں۔ اور یہ تو سب دیکھ رہے ہیں کہ مودی کی تقریروں کے بعد ہندو ہی الگ الگ نہیں ہوئے الیکشن بھی مسلمانوں سے دور ہوگئے کیونکہ ہندوستان کی مذہبی آزادی کو مودی جی نے ختم کردیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔