جدا زمانے سے کچھ بھی اگر بنایا جائے
جہاں گیر نایاب
جدا زمانے سے کچھ بھی اگر بنایا جائے
جنونِ شوق کو ، شوریدہ سر بنایا جائے
…
بگڑ نہ جائیں کہیں خد و خال پھر میرے
مجھے سلیقے سے اب کوزہ گر ، بنایا جائے
…
اگر دکھانا ہے مقصود خوں چکاں منظر
تو کیا ضروری ہے نیزے پہ سر بنایا جائے
…
بہت طویل ہے یہ عرصئہ فراق اسے
جو ہو سکے تو ذرا مختصر بنایا جائے
…
دیا ہے حکمِ سفر جب مجھے سمندر کا
ہر ایک موج کو پہلے بھنور بنایا جائے
…
بنا کے خود کو کبھی ایک سیپ کی صورت
خمیرِ عشق سے اس میں گہر بنایا جائے
…
اک عمر کٹ گئی اس دل کو دل بنانے میں
مزہ تو جب ہے کہ حُسنِ نظر ، بنایا جائے
…
وہ جسکی لوسے اندھیروں کی روح کانپتی ہے
اسی دیے کو نویدِ سحر بنایا جائے
…
بہاتے رہتے ہیں جن کو فضول ہم نایاب
ان آنسوؤں کو کبھی آبِ زر بنایا جائے
تبصرے بند ہیں۔