بچے اور والدین

عبدالکریم شاد

رات کے کھانے سے فارغ ہو کر محترمہ برتن صاف کرنے لگیں اور میں اپنی ڈیڑھ سالہ لخت جگر عائشہ کو منانے میں مصروف ہو گیا۔ ویسے تو وہ بڑی خوش مزاج ہے لیکن بچی ہی ٹھہری، کبھی کبھی ضد کر لیتی ہے، تھوڑی دیرپا مگر پیاری ضد۔ رونا شروع کرتی ہے تو آسانی سے مانتی ہی نہیں، اب مائیں تو بچوں کو منانے میں ایکسپرٹ ہوتی ہیں مگر میں تو باپ ہوں، میرے منانے کے طریقے بھی الگ ہیں، کبھی کبھی تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کون سی بات کس لہجے میں کہیں کہ بچی فورا ہنس پڑے، ایسا کیا کریں کہ بچی رونا چھوڑ کر کھیلنا شروع کر دے، الٹی سیدھی صورت بنائیں، یا شیر کی آواز نکال کر خود ڈر جائیں، یا ‘اللہ ماریں گے’ کہہ کر ڈرائیں، یا ‘وہ دیکھو بیٹا’ کہہ کر دھیان بھٹکائیں وغیرہ۔ خیر، جب وہ مان نہیں رہی تھی تو میں ایک لٹکی ہوئی تار سے اس کو بہلانے کی کوشش کرنے لگا۔ میں زور سے تار کو ہلاتا اور جب تار میرے نزدیک آتا تو میں بھاگو بھاگو کہہ کر ہٹ جاتا، یوں وہ کھلکھلا کر ہنسی اور مجھے بار بار ایسا کرنے کیلئے کہنے لگی۔ پھر کیا، میں مارے خوشی کے ایسا ہی کرتا رہا۔  اولاد کے ساتھ کھیلنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے، یہ خوشی تو ایک صاحب اولاد ہی محسوس کر سکتا ہے۔ جب اولاد باپ کے گال پر تھپڑ مار کر کھلکھلاتی ہے تو باپ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔

جب وہ مان گئی تو میں نے سوچا بستر لگا کر سلا دوں، ‘بیٹا بیٹھو زرا تو بستر لگا دوں نا’ کہہ کر اسے بٹھایا تو وہ ناراض ہو کر لیٹ گئی اور میں بستر لگانے لگا۔ اتنے میں چھوٹی بہن نے آکر اسے چھیڑ دیا اور پھر اس نے جو نوٹنکی شروع کی ہے مانو جن آیا ہوا ہو۔

ارے ارے۔ ۔  کیا ہوا۔ ۔ کون مارا۔ ۔ نا نا۔ ۔ اچھا اچھا۔ ۔ چپ جا بیٹا۔ ۔ او دیکھو او دیکھو۔ ۔ یہ لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔

ساری چاپلوسیاں بے کار۔ اب تو تار سے بھی نہیں بہل رہی تھی۔ میں حیران ہو گیا، کبھی تو دل کیا کہ ماروں ایک تھپڑ لیکن شفقت غالب تھی سو ہاتھ اٹھ نہ سکا۔ اتنے میں محترمہ برتن صاف کر کے آئیں اور اسے گود میں لے کر بہلانے کی کوشش کرنے لگیں لیکن مجال ہے کہ وہ مان جائے، گود سے کود کود کر غصہ دکھا رہی تھی، گال سہلاؤ تو ہاتھوں سے جھٹک دیتی، کچھ سننے کو تیار نہ تھی۔ تنگ آ کر محترمہ نے ایک دو ہاتھ گال پر رسید کر دئے لیکن اس سے وہ اور بپھر گئی۔ میں اٹھا اور محترمہ کو بقیہ کام کرنے کا کہہ کر عائشہ کو گود میں لے کر گھر سے نکل گیا۔ رات کا وقت تھا، گلی میں سناٹا تھا، ابھی سب سوئے تو نہیں تھے لیکن دروازے بند تھے۔ میں گلی کی سعی کرنے لگا اور تھوڑی دیر میں عائشہ بحال ہو گئی۔ میں اس کے چہرے کو دیکھتا اور مسکرا دیتا اور بڑبڑاتا ‘ضدی بچی نے پریشان کر کے رکھ دیا، کیا معلوم کیا ہو جاتا ہے اسے’۔

عائشہ اب سونے لگی تھی مگر رونے کے اثر سے اب تک سسک رہی تھی۔ میں گلی میں آہستہ آہستہ چل رہا تھا کہ میرے خیالات کو پر لگے اور میں اپنے بچپن کے تصورات میں کھو گیا۔ میں بھی کبھی بچہ تھا اور اسی طرح ضد کرتا تھا، میرے والدین بھی مجھے منانے کے لئے نہ جانے کیا کیا کرتے ہوں گے، والد میری سواری بن جاتے ہوں گے، تکئے سے منہ چھپا کر چڑھاتے ہوں گے، کان پکڑ کر منہ بناتے ہوں گے، روٹھنے کا بہانہ کرتے ہوں گے، سیر کرانے لے جاتے ہوں گے، دوکان پر لے جاکر پوچھتے ہوں گے بولو بیٹا کیا چاہئے؟۔۔۔۔ والدہ پورے خاندان والو کے نام کا لڈو بنا کر کھانا کھلاتی ہوں گی، لوری سنا کر سلاتی ہوں گی، سونا، لعل، ہیرا، موتی، بابو، راجا بیٹا وغیرہ کہتی ہوں گی۔ ۔۔۔۔ غرض کہ والدین میرے سارے نخرے پیار سے اٹھاتے ہوں گے اور اسی طرح خوش رہتے ہوں گے جیسے کہ اب میں خوش ہوں۔ واقعی، اللہ نے والدین کا جو حق رکھا ہے وہ اس کے اہل ہیں۔

کچھ دیر بعد محترمہ دروازے پر آ کر ہمیں دیکھنے لگیں، میں انکے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ سو گئی ہو تو لائیں سلا دیں۔ میں نے بڑے ہی آرام سے اس کو بستر پر سلا دیا۔

تھوڑی دیر بعد عائشہ اچانک اٹھی اور پھر رونے لگی۔ محترمہ کو اپنی نیند اڑنے کا کوئی رنج نہیں تھا لیکن بیٹی کا رونا انہیں نڈھال کر رہا تھا، ایک ایک کر کے اسباب گنا رہی تھیں۔ ‘شاید کوئی برا سپنا دیکھ لی ہے، مچھر نے تو نہیں کاٹا، دیکھئے نا کیا ہوا۔ ۔ وہ پریشان ہو گئیں اور مجھ سے کہنے لگیں کہ دعا کر دیجئے، آج اس نے نیا فراک پہنا تھا کہیں نظر نہ لگ گئی ہو۔ میں نے سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھ کر دم کر دیا۔

کچھ دیر بعد عائشہ روتے روتے ہی سو گئی۔ میں اپنے بچپن کی سوچ میں دوسرے کمرے کی طرف چلا گیا، والدین سو رہے تھے، انہیں پیار سے دیکھا، مسکرایا اور واپس آ کر سو گیا۔

تبصرے بند ہیں۔