سب کے دانتوں تلے دب گئیں انگلیاں
عبدالکریم شاد
سب کے دانتوں تلے دب گئیں انگلیاں
جب ہماری تمھاری ملیں انگلیاں
…
تو انگوٹھی میں دل میرا جڑ کر پہن
اور زیادہ حسیں ہوں حسیں انگلیاں
…
اف! ہوا گال پر زلف لاتی رہی
اور پیہم ہٹاتی رہیں انگلیاں
…
تو نہ جا یوں جھڑک کر انھیں ہم سفر!
تھامنے والی ملتی نہیں انگلیاں
…
میرے دل کے سبھی تار ہلنے لگے
چھو گئیں جب تری مرمریں انگلیاں
…
تیری الجھی ہوئی زلف سلجھی نہیں
ساتھ دل کے اسی میں پھنسیں انگلیاں
…
شرم سے سرخ کلیاں کھلیں گال پر
ہاتھ ملنے میں جب دب گئیں انگلیاں
…
اے مرے ہم سفر! مجھ کو اندھا نہ کر
راستے میں چھڑا مت کہیں انگلیاں
…
یوں تصور میں تیرے میں گم سم رہوں
دیدِ یوسف سے جیسے کٹیں انگلیاں
…
عشق اتنا ہی مشہور ہوتا گیا
جتنی لوگوں کی اس پر اٹھیں انگلیاں
…
میں سمجھتا ہوں تیرے اشارے سبھی
میری جانب اگرچہ نہیں انگلیاں
…
انگلیوں پر گنے جاتے ہیں میرے دوست
یعنی غیروں پہ اٹھتی رہیں انگلیاں
…
ان کو زینہ بنا کر میں چڑھتا رہا
دشمنوں کی جو مجھ پر اٹھیں انگلیاں
…
طیش میں جب ہماری زباں چپ ہوئی
مثلِ خنجر مخاطب ہوئیں انگلیاں
…
ایک حمام میں سارے ننگے دکھے
سب کی اک دوسرے پر اٹھیں انگلیاں
…
ان پہ تسبیح و تحمید و تکبیر پڑھ
ہیں انھی کے لیے تو بنیں انگلیاں
…
اک کلک پر میسر ہیں اب خیر و شر
شاد! کس کس بٹن پر دبیں انگلیاں
تبصرے بند ہیں۔