سب کے دانتوں تلے دب گئیں انگلیاں

عبدالکریم شاد

سب کے دانتوں تلے دب گئیں انگلیاں

جب ہماری تمھاری ملیں انگلیاں

تو انگوٹھی میں دل میرا جڑ کر پہن

اور زیادہ حسیں ہوں حسیں انگلیاں

اف! ہوا گال پر زلف لاتی رہی

اور پیہم ہٹاتی رہیں انگلیاں

تو نہ جا یوں جھڑک کر انھیں ہم سفر!

تھامنے والی ملتی نہیں انگلیاں

میرے دل کے سبھی تار ہلنے لگے

چھو گئیں جب تری مرمریں انگلیاں

تیری الجھی ہوئی زلف سلجھی نہیں

ساتھ دل کے اسی میں پھنسیں انگلیاں

 شرم سے سرخ کلیاں کھلیں گال پر

ہاتھ ملنے میں جب دب گئیں انگلیاں

اے مرے ہم سفر! مجھ کو اندھا نہ کر

راستے میں چھڑا مت کہیں انگلیاں

یوں تصور میں تیرے میں گم سم رہوں

دیدِ یوسف سے جیسے کٹیں انگلیاں

عشق اتنا ہی مشہور ہوتا گیا

جتنی لوگوں کی اس پر اٹھیں انگلیاں

میں سمجھتا ہوں تیرے اشارے سبھی

میری جانب اگرچہ نہیں انگلیاں

انگلیوں پر گنے جاتے ہیں میرے دوست

یعنی غیروں پہ اٹھتی رہیں انگلیاں

ان کو زینہ بنا کر میں چڑھتا رہا

دشمنوں کی جو مجھ پر اٹھیں انگلیاں

طیش میں جب ہماری زباں چپ ہوئی

مثلِ خنجر مخاطب ہوئیں انگلیاں

ایک حمام میں سارے ننگے دکھے

سب کی اک دوسرے پر اٹھیں انگلیاں

ان پہ تسبیح و تحمید و تکبیر پڑھ

ہیں انھی کے لیے تو بنیں انگلیاں

اک کلک پر میسر ہیں اب خیر و شر

شاد! کس کس بٹن پر دبیں انگلیاں

تبصرے بند ہیں۔