حاصل کریں گے جو انہیں ماحول دیجیے
ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
تعلیم وتربیت کے حوالے سے ایک مشہور انگریزی نظم جو Dorothy Law Nolte نے تحریر کی ہے اور اس کا منظوم مفہوم مثنوی کی صورت میں بزبان اردو پیش خدمت ہے۔ جس میں انتہائی بہترین طریقے سے بچوں کی تربیت کے بارے میں رہنمائی کی گئی ہے ۔اور اس حقیقت کو لفظوں کے خوبصورت پیرائے وسانچے میں ڈھالاگیا ہے کہ بچے جس ماحول میں رہتے ہیں وہی سیکھتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ بچہ وہ نہیں سیکھتا جو اس کا والد اسے کہتا ہے یا جس کی تاکید کرتاہے بلکہ وہ سیکھتا ہے جو وہ اپنے والد کو کرتے ہوئے دیکھتاہے۔یعنی جب بچے اچھا دیکھیں گے تو وہ اچھا سوچیں گے اورپھر اچھا ہی عمل کریں گے۔بالفاظ دیگراس کا لب لباب یہ ہے کہ آپ بچوں کی جس انداز سے تربیت کرنا چاہتے ہیں آپ انہیں وہ ماحول مہیا کردیں گے۔
بچے موم کی مانند ہیں کہ انہیں جس سانچے میں ڈھالا جائے گا بآسانی ڈھل جائیں گے۔ ہمیں جدوجہداپنامطلوبہ سانچہ بنانے میں کرنی پڑے گی۔جب سانچہ یعنی ماحول تیارہوجائے گا تو تعلیم وتربیت کا باقی ماندہ عمل بہت ہی سہل ،مؤثر اوردلکش ہوجائے گا۔بہترین جسمانی صحت اور زبان دانی کے معاملہ میں عرب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ فصاحتِ لسان کے لئے سازگار ماحول مطلوب ہوتا ہے ۔اسی غرض سے وہ اپنے بچوں کو قبائلی اوردیہی علاقوں میں بھیجاکرتے تھے۔ یہ رہنما اصول دوسری زبانوں کی تعلیم کے لئے بھی کارفرما ہوتاہے۔آج تعلیمی نفسیات کی رو سے زبان کی تدریس کے لئے Direct Method زیادہ موثر اورکارگر ہوتاہے۔ بالفاظ دیگر بچوں کو دوسری زبان کی دنیا(مصنوعی ماحول) میں لے جایاجائے۔لیکن ماحول کی یہ اہمیت صرف جسمانی صحت یا زبان دانی کی حد تک نہیں ہے بلکہ بچوں کی تمام ترتربیت کا دارومدار اسی سازگار ماحول پرہے۔ اس اہم نکتہ کو تعلیم وتربیت کرنے والے افرادفراموش کردیتے ہیں پھر بچوں کی غلط تربیت کی تمام ترذمہ داری بچوں پرڈال کرانہیں مطعون کرتے ہیں۔عموماً ہمارا معاشرتی رویہ اس مصرعہ "چلیں ہیں کعبہ پکڑے ہوئے ہیں چین کاروٹ” کے مصداق ہے۔
اس نظم میں تفصیل سے اس ہی ایک نکتہ کوسمجھایاگیا ہے کہ بچہ جو کچھ بنتا ہے اس میں وراثت سے زیادہ اس کے ماحول اور ماں باپ کی تعلیم و تربیت کاعمل دخل ہوتاہے۔
مثلاً جس گھر میں بچوں پر بے جا تنقید ہوتی ہے وہ بچے جب پروان چڑھیں گے تو ہر کام کو ناقدانہ پہلو ہی سے دیکھیں وہ کسی کی اچھائی کو بھی تحسین کی نگاہ سے نہ دیکھیں گے اس کے ساتھ ایک اور برائی جو ان میں نشوونما پائے گی وہ الزام تراشی اورعیب جوئی کی ہے(جو اس وقت ہمارے معاشرے میں عروج پر ہے)۔ وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ بھی دوسروں پر ڈالیں گے۔ اپنی اصلاح کے بجائے الزام تراشی سے کام لے کر قیل وقال یعنی بحث ومباحثہ میں خود کوبچانے کی کوشش کریں گے جس کا بہت بڑا نقصان یہ ہوگا کہ وہ کبھی اپنی اصلاح نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ اصلاح کے لئے اپنی غلطی تسلیم کرنا ضروری ہے الزام تراشی کرنے والا فرد کبھی بھی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔اور”پرنالہ وہیں رہے گا” کا مصداق بن جاتاہے۔
بچوں کی اصلاح کے لئے ان کی عادات پر نظرضروررکھیئے ۔لیکن ان کی تضحیک، تذلیل اورتخویف نہ کی جائے ۔کیونکہ تضحیک کرنے سے وہ احساس کمتری کے شکار ہوجائیں گے، تذلیل کرنے سے احساس جرم میں گرفتار ہوجائیں گے۔ترہیب و تخویف ان سے بچپن کی شوخیاں چھین لے گی۔ یہ ہمہ وقت اداس اورغمگین رہیں گے۔ اداس اورغمگین رہنے کی وجہ سے ان کی جسمانی ،ذہنی، معاشرتی اورجذباتی نشوونما بری طرح متاثرہوگی اوران میں بہت سی خامیاں وخرابیاں پیدا ہوجائیں گی۔ یہ جسمانی وذہنی بیماریوں کا شکار ہوجائیں گے۔یہ تو زندگی کا بہت ہی نازک دور ہے، مسلسل ان منفی امورکی بنا پر دنیا سے بیزار ہوجائیں گے۔ ان کے لئے اس دنیا میں کوئی دلکشی نہ رہے گی۔ جس سے ان کی پوشیدہ صلاحیتیں پروان نہ چڑھیں گے اورمعاشرہ پر ایک بوجھ میں اوراضافہ ہوجائے گا۔
جب کہ اس دور (عہدطفولیت) میں منفی طرزعمل کے بجائے بچوں پرمحبت وشفقت کی نظر رکھیئے اوران کی جائز تعریف وتحسین اوران کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور وہ بھی اچھے کاموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی بن جائیں گے۔ خود بھی خوش وشاداں ہوں اوران کی چہچہاہٹ سے پوراچمن خوشی سے سرشارہوگا۔ ان کی صلاحیتیں خوب نکھر کرسامنے آئیں گی۔معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے معاشرے کے بوجھ میں ہاتھ بٹانے والے بن جائیں گے۔ اپنی زندگی کے مقصد یعنی مقصد حیات کی تحصیل میں ہمہ وقت سرگرم رہیں گے۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنے بچوں کی تربیت کس انداز سے کرناچاہتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنی اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
اس انگریزی نظم کا منظوم مفہوم راقم السطور کے والد ماجد جناب ابوعلی محمد رمضان صاحب نے نظم بندکیاہے۔
حاصل کریں گے جو انہیں ماحول دیجئے تنقید مت کریں سونہ الزام سیکھ لیں | Children Learn What They Live If children live with criticism, They learn to condemn. |
تبصرے بند ہیں۔