کانگریس کی جیت اور ہم: آخر کب تک بوجھ ڈھوئیں گے

ڈاکٹر عابد الرحمن

اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی جیت کی خوشی جتنی مسلمانوں کو ہوئی اتنی شاید کانگریس کو بھی نہیں ہوئی۔  نتائج کے رجحانات میں کانگریس کی برتری نے ہی مسلمانوں کو ایسے جوش و ولولہ سے بھر دیا تھا کہ جیسے اب کچھ ہی پل میں خلافت اسلامیہ قائم ہونے والی ہے زمام اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں آنے والی ہے اور بس گھڑی کی گھڑی میں مسلمانوں کے تمام مسائل حل ہونے والے ہیں۔

دراصل ہم نے اپنے آپ کو کانگریس سے اس بری طرح جوڑ رکھا ہے کہ جیسے وہ اپنی مائی باپ ہو اور کانگریس ہے کہ اس نے کبھی بھی ہمیں بندھوا مزدوروں سے زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ اب تووہ ہمیں زر خرید غلاموں سے بھی گئے گزرے سمجھ رہی ہے۔ پہلے بھی تو ہم کو لبھانے کے لئے کچھ وعدے کئے جاتے تھے، کچھ اعلانات ہوتے تھے، ہمارے مسائل کا رونا رویا جاتا تھا اور ان مسائل کا حل نکالنے کی باتیں ہوتی تھیں، درگاہوں خانقاہوں کے دورے ہوتے تھے کچھ مشاعرے ہوتے تھے اور کہیں قوالیاں ہوتی تھیں لیکن ۲۰۱۴ کے بعد یہ سب بھی بند ہو چکا، اب تو کانگریس اور اس کے صدر راہل گاندھی مسلمانوں کا ’م‘ بھی نہیں بول رہے۔

گجرات اسمبلی انتخابات کے وقت سے تو انہوں نے کانگریس کو ہندو پارٹی بنا لیا ہے جو تقریباً پوری طرح بی جے پی کی روش پر چل پڑی ہے بلکہ مسلمانوں کو بی جے پی سے زیادہ نظر انداز کر رہی ہے۔ ہندوؤں کے تئیں راہل گاندھی کا معاملہ مسلم مخالفت تک تو بہر حال ابھی نہیں پہنچا لیکن اسی سمت رواں ضرور دکھائی دے رہا ہے۔ اگر وہ کہیں سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کوے خلاف بولتے ہیں تو فوراً کسی نہ کسی مسلم تنظیم کو بھی اس سے جوڑ کر حساب برابر کر نے کی کوشش کرتے ہیں، مسلمانوں کے تئیں ان کا تعصب یا نظر اندازی اس وقت بھی دکھائی دیتا ہے جب وہ ہندوؤں کے لئے کچھ کرتے ہیں تو اسے مسلمانوں سے بیلنس نہیں کرتے مثلاً جب مندروں اور مٹھوں کے دورے کرتے ہیں پوجا پاٹ کرتے ہیں، تلک لگا تے ہیں بھگوے رومال اوڑھتے ہیں پگڑی باندھتے ہیں تو درگاہوں اور خانقاہوں کے دورے کر کے یا مسلمانوں کے درمیان ٹوپی پہن کر ہندو مسلم کا حساب برابر نہیں کرتے۔

حالیہ اسمبلی الیکشنس میں ان کے مینینفیسٹو میں مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں رہا، جبکہ خود انہی کی مرکزی سرکار کے ذریعہ تشکیل کردہ سچر کمیٹی مسلمانوں کی حالت زار جگ ظاہر کر چکی ہے اور اس کے علاج کے طور پر کئی سفارشات بھی کر چکی ہے، اور ویسے بھی پورے ملک میں اگر کوئی سب سے زیادہ پچھڑی قوم ہے تو وہ مسلمان ہیں لیکن کانگریس کے مینیفیسٹومیں اس پچھڑی قوم مسلمانوں کاسرے سے کوئی ذکر ہی نہیں رہا۔ اس کے علاوہ مودی سرکار آنے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف منافرت اور منافرتی جرائم میں جو بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اس کے متعلق بھی انہوں ایک لفظ نہیں کہا۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں تو گؤ رکشا اور بیف کو لے کر مسلمانوں کے خلاف کئی وارداتیں ہو چکی ہیں لیکن ان کے بارے میں بھی راہل گاندھی خاموش ہی رہے، نہ ان وارداتوں کے مظلومین کو انصاف دلانے کا یقین دلایا اور نہ ہی پورے ملک میں عام مسلمانوں کو اس طرح کے مظالم، مذہبی تعصب اور ہجومی تشدد اور اس کے ڈر سے نجات دلانے کے لئے کسی سیاسی اقدام کا اعلان کیا۔ بلکہ اس کے بر خلاف مدھیہ پردیش میں اپنے الیکشن مینیفیسٹو میں تو انہوں نے گوشالا ئیں بنانے اور گائے کے پیشاب اور گوبر کے ذریعہ اپلوں کی پیداوار کے لئے ایک مذہبی اور روحانی ڈپارٹمنٹ قائم کر نے کا بھی وعدہ کیا۔ ہمیں ان کے مندر مندر جانے پوجا پاٹ کر نے تلک لگانے اپنے آپ کو ہندو ثابت کر نے اور اپنی پارٹی کانگریس کو ہندو پارٹی یا ہندوؤں کی پارٹی ثابت کر نے سے، درگاہ یا مسجد نہ جانے یا ٹوپی نہ پہننے سے کوئی پرابلم نہیں ہے، لیکن خاص طور سے مسلم منافرت، مسلمانوں کے خلاف منافرتی جرائم، گؤ رکشا اور گؤ رکشکوں کے ہجومی تشدد کے خلاف وہ بھی مودی جی کی طرح خاموش رہیں تو ان میں اور مودی جی میں ان کی پارٹی کانگریس میں اور بی جے پی میں کیا فرق رہا ؟اگر مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ان تمام مظالم کے خلاف مودی جی کی خاموشی دراصل ان کی درپردہ حمایت ہے تو راہل گاندھی کی خاموشی کو بھی اسکی حمایت کیوں نہ سمجھا جائے ؟کانگریس کی جیت پر بغلیں بجانے والوں نے سوچنا چاہئے کہ ایسی صورت میں اس کی جیت سے ہمیں خوشی کیوں ہو؟

دراصل کانگریس پہلے بھی سیکولر نہیں تھی اس کا سیکولرازم جعلی تھا جس کا مقصد مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر زخم پر زخم لگاتے رہنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا، جہاں تک ہندوتوا کا سوال ہے تو راجیو گاندھی نے رام راجیہ اور رام مندر کے شیلا نیاس سے اس سیاست کی شروعات کی اور اب راہل گاندھی اس سے آگے بڑھ کر کھلی ہندوتوا سیاست کر نے لگے ہیں، اس دوران صرف مسلم قوم ہی ہے کہ جس نے کانگریس کے سیکولرازم کو اپنے سروں پر ڈھویا ہے اور اس میں اپنے نقصان کی بھی پروا نہیں کی، کبھی کانگریس کے متبادل اور اس کے علاوہ کسی دوسری سیاست کے متعلق سوچا بھی نہیں اب بھی ایک ہی سوراخ سے پے در پے ڈسے جانے کے بعد بھی ہم اس ضمن میں کچھ سوچنے کے لئے تیار نہیں، اور اس کا صلہ یہ مل رہا ہے کہ کانگریس یہ اعلان کرتی پھر رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کی وجہ سے ہاری، اور باضابطہ ہمیں نظر انداز کیا جارہا ہے، بلکہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کچھ بھی ہو ہم کانگریس کے علاوہ اور کہیں نہیں جا سکتے، ہمیں مار کر بھی ہمارے ووٹ حاصل کئے جا سکتے ہیں ہمیں بتا دینا چاہئے کہ یہ کانگریس کی غیر سمجھ ہے۔

اب ضروری ہوگیا ہے کہ ہم کانگریس کا قلادہ اتار پھینکیں۔ اگر اسی کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھنی ہے تو برابری کی سطح پر اس سے سودے بازی کریں۔ آخر ہم کب تک کانگریس اور اسکے جعلی سیکولرازم کا بوجھ ڈھوتے رہیں گے اور ملک کی سیاسی بساط پر مسلسل ہارتے رہیں گے؟

 ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے نئی سیاسی شروعات کا ایک بہترین موقع ہے۔ کانگریس کو بی جے پی کی سیاست پر آنے دیں دونوں کو ایک ہی طرح کی سیاست میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر کے عوام کو اور خود انہیں بھی ان کی اوقات کا علم ہو جانے دیں اور اس دوران ایک متحد منظم اور مضبوط سیاسی قوت کا روپ دھاریں اور پھر اپنی شرطوں پربہت دور اندیشی سے کسی سیاسی پارٹی سے سودے بازی کریں، یا کسی سیاسی پارٹی کو سبق سکھانے کا کام کریں۔ ہمیں یہ اچھی طرح دھیان رکھنا چاہئے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ہماری ہمدرد نہیں اور علیٰحدہ مسلم پارٹی بنا کر بھی ہم کچھ خاص نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنا سیاسی وزن اتنابڑھا نا ہوگا کہ جس طرف بھی ہم جائیں اس کا پلڑا بھاری ہو جائے لیکن اس کے لئے بہت سوچ سمجھ کر، ماضی اور حال کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کا لائحہء عمل تیار کرنا ہوگااور اس میں جذباتیت کی بجائے ہوش کو، چلا پکار کی بجائے عمل کو اور جارحانہ اور اشتعال انگیز بیان بازی کی بجائے سنجیدہ اور خوش گفتاری اور نرم لہجے کو مقدم رکھنا ہوگا کیونکہ مسلم مخالف پولرائزیشن کی سیاست کی ایک اہم چال یہ بھی ہے کہ جس لہجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے ہیں مسلمانوں میں سے بھی کوئی اٹھے اور اسی لہجے میں اگر ان کے یا ہندوؤں کے خلاف اشتعال انگیزی نہ بھی کرے توانتہائی جارحانہ اور  اشتعال انگیزانداز میں مسلمانوں کے حقوق اور ان کے خلاف ہونے والے مظالم کی بات کرے تا کہ پہلے ہی مختلف نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں بٹے ہوئے مسلمان مزید بٹ جائیں اور ان کی ایک بڑی تعداد انہیں ہی اپنا مسیحا سمجھے اور جذباتی ہوکر ان کی طرف چلی جائے اور اس کا شور بھی کرے اور نتیجتاً ہندو اس مسلم سیاسی پارٹی سے ڈر کر اسے روکنے کے لئے مزید متحرک اور جذباتی ہوکر پوری شدت سے اس سیاست کے بازی گروں کی طرف چلے آئیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں مسلم سیاست کا شور اور مسلم سیاسی پارٹی کا غلغلہ اوراس میں جارحانہ بیان بازیاں دراصل اسی کی عملی شکل ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کی طرف پولرائزیشن بڑھا ہے۔

سو اس بات کا بھی خاص خیال رکھتے ہوئے ہمیں دلت پچھڑوں اور مظلوم طبقات کو ساتھ لے کر چلنے والی سیاست کر نی چاہئے۔ اس میں اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے کہ یہ تاثر کبھی نہ جائے کہ ہم کسی مخصوص پارٹی کے دوست ہیں یا کوئی پارٹی ہماری دشمن ہے۔ اسی طرح ہماری صفوں میں موجود کالی بھیڑوں، کرائے کے ٹٹوؤں، منافقوں اوران بے ضمیر دلالوں کو پہچاننا اور مسترد کرنا بھی انتہائی ضروری ہے جو اپنے معمولی ذاتی مفادات کے لئے پوری قوم کا سودا کر نے سے بھی نہیں چوکتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔