حجاب اسلام کا لازمی حکم ہے
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
بالآخر حجاب کے موضوع پر جنوبی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا، جس کا حجاب کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کو شدّت سے انتظار تھا۔ ہائی کورٹ کی سہ رکنی بنچ نے، جو چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دکشت اور جسٹس جے ایم قاضی پر مشتمل تھی، کالج کی مسلم طالبات کی ان درخواستوں کو خارج کر دیا جن میں کلاس روم کے اندر حجاب یا سر پر اسکارف پہننے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔ ریاست کے ضلع اڈوپی میں حجاب کا یہ تنازعہ دسمبر۲۰۲۱ء میں اس وقت شروع ہوا تھا جب ایک کالج کی بعض طالبات کو اسکارف پہننے کے سبب کلاس روم میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا تھا۔ پہلے طالبات نے اس پر احتجاج کیا، لیکن جب انتظامیہ نے ان کی حمایت کرنے کی بجائے اسکول ایڈمنسٹریشن کی حمایت کی تو اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ۵؍ فروری۲۰۲۲ء کو جاری ہونے والے اس سرکاری حکم نامے کو بھی برقرار رکھا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ جن کالجوں میں یونی فارم کا تعین کر دیا گیا ہے، وہاں حجاب پہننے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
ہائی کورٹ کے فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں جو باتیں کہی ہیں ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ: ’’ہمارا خیال ہے کہ اسلامی عقیدے میں مسلم خواتین کا حجاب پہننا کوئی لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔ ‘‘انھوں نے اپنے فیصلے میں قرآن مجید کی آیات اور دوسرے بیانات نقل کیے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ احکام مسلم خواتین کے لیے سفارشی اور اختیاری ہیں، انہیں ان پر لازم نہیں کیا گیا ہے۔ کتنی عجیب ہے کہ جو احکام قرآن مجیدمیں تاکیدی اسلوب اورصریح الفاظ میں دیے گئے ہیں انہیں فاضل جج غیر لازمی قرار دے رہے ہیں ۔ یہ بات تو کسی بھی حکم کے بارے میں کہی جا سکتی ہے، پھر اس طرز ِ استدلال کو مان لینے کی صورت میں ہر حکم اپنی معقولیت کھو دے گا اور کسی مقتدرہ کے لیے اس پر عمل کراپانا ناممکن ہوجائے گا۔
اسلام ایک صالح اور پاکیزہ سماج قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ عریانی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس لیے مرد اور عورت دونوں کو جسم کے وہ تمام حصے چھپانے کا حکم دیتا ہے جن میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پائی جاتی ہے۔ اس نے کچھ ایسے احکام دیے ہیں جو سماج میں مردوں اور عورتوں کے دائروں کو الگ الگ کر کے صنفی انتشار کے امکانات کو انتہائی محدود کر دیتے ہیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنے میں معاونت کرتے ہیں جس میں صنفی میلانات کو برانگیختہ کرنے والی تحریکات مفقود ہوتی ہیں ۔ ان احکام سے اسلام کا تصوّرِحجاب واضح ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرقرآن میں مسلمان مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا گیا ہے کہ’’ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور نظر کے فتنے سے محفوظ رہیں ۔ ‘‘(النور:۰ ۳۔ ۳۱)’’ دوسروں کے گھروں میں بغیر پیشگی اطلاع یا اجازت کے داخل نہ ہوں ‘‘(النور:۷ ۲)صنفی ہیجانات و تحریکات کی تحدید کے مقصد سے اسلام ساتر لباس پہننے کی تاکید کرتا ہے۔ (الاعراف:۹ ۲)اس نے عورتوں کے لیے کوئی مخصوص لباس لازم نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی کچھ شرائط بیان کر دی ہیں ۔ جس لباس میں بھی وہ شرائط پوری ہوتی ہوں اس کے پہننے میں کوئی مضایقہ نہیں ۔ ان شرائط کا تذکرہ احادیث میں آیاہے، مثلاً یہ کہ وہ ستر ڈھانکنے والا ہو۔ (شریعت میں مردوں اورعورتوں کے لیے ستر کے حدودالگ الگ متعین کیے گئے ہیں ۔ مردوں کے لیے ناف اور گھٹنے کا درمیانی حصہ ستر ہے، جب کہ عورتوں کے لیے چہرہ اور ہاتھ (کلائی تک) کے علاوہ پورا بدن ستر ہے، جسے شوہر کے علاوہ تمام لوگوں سے چھپانا لازم ہے، خواہ اس کے قریب ترین اعزّا ہی کیوں نہ ہوں ۔ ) وہ اتنا بار یک نہ ہو کہ اس سے بدن جھلکے، اس لیے کہ اس صورت میں ستر پوشی نہیں ہوسکتی، بلکہ اس سے عورت کے محاسن میں اور اضافہ ہوگا۔ وہ خوشبو میں بسا ہوا نہ ہو، اس لیے کہ خوشبوبھی جذبات کو متحرّک کرنے کا سبب بنتی ہے۔ وہ ڈھیلا ڈھالا ہو، چست نہ ہو، اس لیے کہ چست لباس سے عورت کے جسمانی نشیب و فراز نمایاں ہوں گے، وغیرہ۔ اسلام عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ بن سنور کر غیر مردوں کو دعوت ِ نظارہ دیتی پھرے، بلکہ وہ اسے اپنی زینت کو چھپانے اور اپنے محاسن کو آشکارا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں حکم دیا گیا ہے: ’’اورعورتیں اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کا آنچل ڈالے رہیں ۔ ‘‘( النور :۳۱)آخر میں ہدایت کی گئی کہ عورتوں کی چال بھی ایسی ہونی چاہیے کہ ان کی زینت کا اظہار نہ ہونے پائے اور ان کے زیورات کی جھنکار دوسروں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرلے۔ ( النور:۳۱)
قرآن مجید میں حجاب کے بہت صریح احکام آئے ہیں ۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی’جلابیب‘( چادروں کے پلّو )لٹکا لیا کریں ۔ ‘‘(الاحزاب :۵۹)اس آیت میں ’جلابیب‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کی واحد ’جلباب‘ ہے ۔ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا جسم چھپ جائے۔ اس حکم کو اختیاری اور غیر لازمی نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ یہ حکم لازمی اور بنیادی ہے ۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس طرح کی تاکیدات احادیث ِنبوی میں بھی آئی ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ، جو ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کی بڑی بہن تھیں، اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے غیر ساتر لباس میں آئیں تو آپ ؐ نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ اے اسماء! لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کے ہاتھ کلائی تک اور چہرے کے علاوہ جسم کا اور کوئی حصہ کھلا نہیں رہنا چاہیے۔ (ابو داؤد:۴۱۰۴)عورت کا چہرہ حجاب میں شامل ہے یا نہیں اور اسے چھپاناضروری ہے یا نہیں، اس پر تو مسلم علماء کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس کے علاوہ پورا بدن چھپانے پر پوری امّت کا اتفاق ہے، کیوں کہ یہ حکم صراحت سے قرآن مجید میں موجود ہے۔
فاضل ججوں کو غلط فہمی شاید اس سے ہوگئی کہ بہت سی مسلم خواتین حجاب کا التزام نہیں کرتیں ۔ اس سے انھوں نے یہ سوچ لیا کہ اگر حجاب اسلام کا لازمی حکم ہوتا تو تما م مسلم خواتین اسے اختیار کرتیں ۔ لیکن سوچنے کا یہ انداز درست نہیں ہے۔ بہت سے مسلمان نماز نہیں پڑھتے، اس بنا پر نماز کو اسلام کے بنیادی احکام کی فہرست سے نکال دینا صحیح نہیں ہوگا۔ بہت سے مسلمان روزہ نہیں رکھتے، اس لیے روزہ کو اسلام کاغیر لازمی حکم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بہت سے مسلمان شراب پیتے ہیں، اس بنا پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام میں شراب پینا جائز ہے۔ اسی طرح اگر بہت سی مسلم خواتین حجاب کی پابندی نہیں کرتیں تو اسے اسلام کا اختیاری اور غیر لازمی حکم کہنا درست نہیں ہے۔
فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں دوسرا نکتہ یہ پیش کیا ہے کہ :’’ہماری رائے یہ ہے کہ اسکول کی جانب سے یونی فارم متعین کرنا ایک معقول پابندی ہے، جو آئینی طور پر جائز ہے اور اس پر طلبہ کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ ‘‘یہ بات درست ہے، لیکن اس میں ایک پہلو نظر انداز ہو گیا ہے۔ وہ یہ کہ یونی فارم کی پابندی کے ساتھ کسی اضافی چیز کو اختیار کرنا قانونی طور پر ممنوع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور طالبات یونی فارم پہنتے ہوئے پگڑی پہن سکتے ہیں، ہندو لڑکیاں یونی فارم پہنتے ہوئے ماتھے پر بندیا لگا سکتی ہیں، اسی طرح مسلم طالبات کو بھی یونی فارم پہننے کے ساتھ سر پر اسکارف لگانے کی اجازت ہونی چاہیے۔
فاضل ججوں نے حجاب پر اسلامی نقطۂ نظر سے کمنٹ کرنا تو ضروری سمجھا، اس طرح انھوں نے ایک ایسے میدان میں دخل اندازی کی، جس میں داخل ہونے کا انہیں حق نہیں تھا، لیکن انھوں نے دستوری تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا۔ ان کا یہ فیصلہ آئین میں اقلیتوں کو دی گئی بنیادی حقوق کی ضمانت کے بالکل منافی ہے۔ یہ فیصلہ شہریوں کو حاصل بنیادی آزادی اور مذہبی آزادی کے بھی خلاف ہے۔
تبصرے بند ہیں۔