ممتا بنرجی اور انیس الرحمٰن خان کا قتل

ڈاکٹر سلیم خان

آئندہ ماہ ایوان ِ  زیریں کے  ضمنی انتخاب میں بابل سپریو اور شترو گھن سنہا کو میدان میں اتار کرممتا بنرجی نے ثابت کردیا کہ مغربی بنگال کی حد تک سیاسی ذہانت  میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہ دونوں صاحبان ایک طویل عرصہ بی جے پی میں گزار چکے ہیں۔ بابل سپریو نے دو مرتبہ آسنسول  سے انتخاب لڑکر بی جے پی کے ٹکٹ  کامیابی حاصل کی مگر اس بار ممتا نے انہیں بالی گنج سے میدان میں اتارا کیونکہ وہاں کے مسلمانوں کی خاطر ایسے سابق بی جے پی رہنما کو ووٹ دینا مشکل ہوسکتا ہے جن کو وہ کئی بار بی جے پی کے اسٹیج پر دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے آسنسول سے شتروگھن سنہا کو اتاراگیا کیونکہ وہاں ہندی بولنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور شترگھن سنہا کی شخصیت ان میں مقبول ہوسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی پینترے بازی اقتدار میں رہنے کے لیے کافی ہے؟ کائنات ِ ہستی میں عروج کو زوال  سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ قدرت کا کرشمہ یہ بھی ہے کہ  عروج کے دوران ہی زوال کے عناصر اس طرح دبے پاوں داخل ہوجاتے ہیں  کہ پتہ ہی نہیں چلتا اور جس وقت اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں تب تک بہت تاخیر ہوچکی ہے۔

 مغربی بنگال  تقریباً تیس سالوں تک کانگریس کا ایک مضبوط قلعہ تھا لیکن دیکھتے دیکھتے وہ ریت کے محل کی مانند بکھر گیا۔ اس کے بعد اشتراکی آئے اور انہوں نے بھی پینتیس سالوں تک بلا شرکت غیرے راج کیا۔  ایک زمانے مغربی بنگال کے اشتراکی ناقابلِ تسخیر ہوا کرتے تھے اور ان کے وزیر اعلیٰ جیوتی باسو کو لوگ باگ وزیر اعظم کی کرسی پر فائز کرنے کے خواہشمند  تھے مگرہر کشن سنگھ   سرجیت کے اڑیل رویہ نے یہ نادر موقع سے گنوادیا۔ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ دوسروں کا سہارا تو بنے گی لیکن کسی بیساکھی پر اقتدار نہیں سنبھالے گی کیونکہ ایسا کرتے وقت اسے اپنے اصول و ضوابط سے مصالحت کرنی پڑے گی۔ یہ  اصولی موقف غالباً اس امید میں اختیار کیا گیا ہوگا کہ  جلد یا بہ دیر  وہ خود اپنے  بل بوتے پر اقتدار کی حقدار بن جائے گی حالانکہ اب یہ   ایک دیوانے کا خواب بن گیا ہے جس کے شرمندۂ تعبیر ہونے کا امکان مفقو د ہے۔ مغربی بنگال کے بعد سی پی یمتریپورہ بھی گنوا چکا ہے اور کیرالہ  ان کی امید کا آخری چراغ ہے؎

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

مغربی بنگال میں اشتراکی اتحاد کے زوال کی ابتداء نندی گرام سے ہوئی۔ سی پی ایم کے وزیر اعلیٰ بدھو دیو بھٹا چاریہ نے اپنے روایتی نظریہ اور طریقۂ کار سے انحراف کرتے ہوئے ایک اسپیشل  اکانامک زون بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ اقدام بظاہر ریاست کی ترقی و خوشحالی کے لیے تھا مگر اس کے لیے زمین حاصل کرنا بہت بڑا چیلنج تھا۔ ٹاٹا کی گاڑی نانو کا پلانٹ لگوانے کی خاطر نندی گرام کا انتخاب کیا گیا اور گاوں والوں سے زمین حاصل کرنے کے لیے کوئی مہذب رویہ اختیار کرنے کے بجائے سوویت یونین کے رہنما  اسٹالن کی پیروی میں  گاوں والوں  کو مناسب معاوضہ دے کر خوش کرنے کی جگہ  انہیں بزور قوت  ان کے اپنے کھیتوں سے بے دخل کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ کانگریس سے بغاوت کرکے وزیر اعلیٰ کا خواب دیکھنے والی ترنمول کانگریس کی رہنما  ممتا بنرجی اس  جبرو استحصال میں ایک بہترین موقع نظر آگیا۔ وہ نندی گرام کے لوگوں کی خاطر احتجاج کرنے کے لیے میدانِ عمل میں کود گئیں۔  انہوں نے وہی سب کیا جو اشتراکیوں نے کانگریس کے خلاف کرکے اس کو اقتدار سے بے دخل کیا تھا  اور کامیاب ہوگئیں۔

اشتراکیوں نے اپنے جائز حقوق کی خاطر لڑنے  والےعوام کے خلاف اپنے کارکن چھوڑ دیئے تھے۔ اس  کانتیجہ یہ نکلا کہ نندی گرام کی آگ پورے صوبے میں  پھیل گئی اور سی پی ایم کا چراغ ایسا گلُ ہوا کہ اب وہ’پہلے رام پھر بام‘نعرہ لگا رہے ہیں۔ ممتا کو ہٹانے کی خاطر اشتراکیوں نے ڈھکے چھپے انداز میں فسطائیوں کا بھی تعاون کردیا۔  ایک طرف بی جے پی کا دباو اور دوسری جانب اشتراکیوں کی منافقت نے ریاست کے مسلمانوں اور امن پسند ہندووں کو ممتا کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیا اور انہوں نے بی جے پی کو ایسی دھول چٹائی کہ اس کو دن دہاڑے تارے نظر آنے لگے۔ اس میں شک نہیں کہ ممتا کے حامیوں میں بڑی تعداد کے اندر ہندو بھی شامل تھے لیکن ان کی خاصی تعداد ممتا کے خلاف بھی تھی اس کے برعکس مسلمانوں نے یکمشت ووٹ دے کر وزیر اعلیٰ کو  ایک تاریخی کامیابی سے ہمکنار  کیا۔ یہ پس منظر اس لیے بیان کیا  گیا کیونکہ اب ممتا بنرجی بھی وہی  عظیم غلطی کررہی ہیں جو سی پی ایم سے سرزد ہوئی تھی اور بعید نہیں کہ وہ اسی انجام سے دوچارہوجائیں  جو اشتراکیوں کا ہواتھا۔ وہ غلطی  انیس الرحمٰن خان کا بہیمانہ قتل   ہے۔

سیاسی جماتیں عام طور پر اس وقت بڑی بڑی غلطیاں کرتی ہیں جب ان کے اقتدار کو سنگین  خطرات لاحق ہوجاتے ہیں لیکن ممتا کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ممتا نے ایک ایسے وقت میں   اپنے پیر پر کلہاڑی چلانے کی حماقت کی  ہے کہ  جب انہیں اس کی مطلق ضرورت نہیں تھی۔ صوبائی انتخاب  میں زبردست کامیابی درج کرانے کے بعد انہیں کولکاتہ  کے بلدیاتی انتخابات میں غیر معمولی  کامیابی ملی۔  وہاں بی جے پی نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بچانے کے لیے سارا زور لگا دیا مگر  وہ  پانچ سال قبل کے 7 اور 5 ماہ پہلے کے 11 سے اتر کر 3کونسلرس  پر آگئی۔ عام طور پر ایسے میں سنگھ پریوار سیٹ کے بجائے ووٹ کا تناسب بتا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی حالت بہتر ہوئی ہے لیکن اس بار یہ بھی ممکن نہیں ہوسکا۔بی جے پی  کے ووٹ کا تناسب کمیونسٹ محاذ سے بھی نیچے اتر گیا۔ ٹی ایم سی  نے 144 میں 134 حلقوں میں جیت درج کرائی جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔  بی جے پی کے زخموں پر نمک چھڑکنے  اور مسلمانوں کو خوش کرنے  کے لیے ممتا  بنرجی نے فرہاد حکیم کو  کولکاتہ کا میئر بنادیا۔

اس کے بعد مغربی بنگال کے بلدیاتی انتخابات میں ترنمول کانگریس نے ایسی  زبر دست کامیابی درج کرائی کہ خود انہیں بھی اس کی توقع نہیں رہی ہوگی۔ جملہ ۱۰۸؍ میں سے ۱۰۲؍ میونسپلٹی پرقبضہ کرلینا  کوئی معمولی بات  نہیں ہے۔ بی جےپی اورکانگریس کا اس طرح صفایہ ہوا کہ وہ  ایک بھی میونسپلٹی میں بورڈقائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔یہ سچائی ہے کہ دارجلنگ میونسپلٹی میں ہمرو پارٹی نے ترنمول کانگریس کو کراری شکست  سے دوچار کردیا اورطاہر پور میونسپلٹی  میں بایاں محاذ محض بورڈ بنانے میں کامیاب رہا  لیکن دیگر مقامات پر ترنمول کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ ترنمول کانگریس نے اس بار کانتی میونسپلٹی میں کامیابی حاصل کرکے قائد حزب اختلاف اور نندی گرام سے بی جے پی کے ممبراسمبلی شوبھندو ادھیکاری  سے بدلہ لے لیا کیونکہ وہ ان کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ممتا بنرجی نے اس شاندارجیت کا کریڈٹ  ماں، ماٹی اور مانش (انسان) کو دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا انیس الرحمٰن کسی ماں کا بیٹا نہیں تھا؟ کیا اس انسان  کا تعلق دھرتی سے نہیں تھا؟ ؟  اگر تھا تو اس کے خون کا چھینٹا ممتا کے دامن پر کیوں نظر آرہاہے ؟    دنیا الفاظ کے ساتھ کردار کو دیکھتی ہے اور جب دونوں کو متضاد پاتی ہے تو اسے واپس  منہ پر دے مارتی ہے۔ ایسا ہی  کچھ فی الحال ممتا بنرجی کے ساتھ ہورہا ہے۔

بلا قصور کسی کو قتل کرنے کا ویسے بھی کوئی جواز نہیں ہوتا لیکن موجودہ جمہوری سیاست میں جن مقاصد کے تحت قتل و غارتگری کو جائز قرار دے دیا گیا ہے اس کی کسوٹی پر   انیس الرحمٰن کے قتل پورا نہیں اترتا۔ اس  کا کوئی سیاسی جواز سرے سے موجود ہی نہیں تھا لیکن  ہر اقتدار کے زوال کی شروعات اسی طرح ہوتی ہے اور اگر ممتا ان قاتلوں کو سزا دلانے میں آنا کانی کرتی ہیں تو وزیر اعظم کا خواب بہت دور کی بات ہے وزارت اعلیٰ کی کرسی بھی چھن جائے گی۔ اقتدار کے نشہ میں چور لوگ کبھی اپنے پیش رو کے انجام سے عبرت نہیں پکڑتے۔ کانگریس کے سدھارتھ شنکر رے نے یہ نہیں کیا تو جیوتی باسو کا ستارہ چمکا۔ بدھو دیو بھٹا چاریہ نے وہی غلطی کی تو ممتا بنرجی کو موقع ملا اور اب وہ خود چونکہ اسی تباہی کے راستے پر چل پڑی ہیں اس لیے کس کو موقع ملے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا؟ لیکن اس میں شک نہیں کہ انیس خان کا خون ناحق رنگ لائے گا۔  بقول امیر مینائی ؎

قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت کے دس سالہ دور اقتدار میں پہلی مرتبہ دیہی  مسلمانوں کے  احتجاج کی ایک وجہ یہ ہے پہلے تو پولس نے اپنی موجودگی کو مشکوک بنایا۔ اس کے بعد اس سانحہ کو خودکشی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ  موت کے وقت انیس الرحمن نے شراب پی رکھی تھی۔ اس کے برخلاف سالم خان کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے نے کبھی شراب کیا  تمباکو کااستعمال  بھی نہیں کیا۔ یہ معاملہ جب بگڑ گیا تو کلکتہ ہائی کورٹ نےازخود نوٹس لے کر  ریاستی حکومت کو انیس خان قتل معاملے سے متعلق تمام تحقیقاتی دستاویزات حاضر کرنے کا حکم دیا۔اس کے  بعد کاشی ناتھ بیرا نامی  ہوم گارڈ اور  پریتم بھٹاچاریہ نام کے پولیس  سیوک کو گرفتار کیا  گیا۔اس  معاملے میں کلکتہ ہائی کورٹ نے  دوسری مرتبہ پوسٹ مارٹم کیلئے انیس کی لاش کو اہل خانہ کی موجودگی میں قبر سے نکال کرپوسٹ مارٹم کرنے اور پورے عمل کی ویڈیو گرافی کرانے کا حکم دیا  تاکہ مجرموں کی سزا دلائی جاسکے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہ معاملہ اب طول پکڑ کر ممتا بنرجی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے اور مسلمانوں کے درمیان ممتا کی ساکھ کو تباہ  کررہا  ہے۔ ممتا بنرجی کو پتہ ہونا چاہیے کہ مسلمان جس کے خلاف ہوجاتے ہیں اس کے دن لد جاتے ہیں کیونکہ  مسلم مخالفین پر آخر کا ریہ شعر صادق آتا ہے؎

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔