حج کی سماجی معنویت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

  حج اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے ایک ہے، جس پر اسلام کی پر شکوہ، بلند وبالا، اخلاق وکردار سے مزین عمارت کھڑی ہوتی ہے، اگر حج مقبول نصیب ہوجائے تو انسان اس سفر سے ایسا پاک وصاف ہو کر لوٹتا ہے، جیسے وہ ماں کے بطن سے آج ہی نمودار ہوا ہے، دنیاوی کثافت، گناہوں کی غلاظت سے پاک وصاف، نو مولود بچے کی طرح معصوم ۔ ہر آدمی کے لیے یہ سفر ممکن نہیں، کبھی مال ودولت کی کمی رکاوٹ بنتی ہے اور کبھی جسمانی اعذار سفر کی اجازت نہیں دیتے؛ اس لیے حج کی فرضیت کے لیے استطاعت کی قید لگائی گئی، کیوں کہ حج میں سفر بھی کرنا ہوتا ہے، اور مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، اب اگر آدمی بیمار ہے، تندرست نہیں ہے تو خود سفر نہیں کر سکتا، قید میں ہے تو اس سے نکل نہیں سکتا، تندرست وتوانا ہے اور مالدار بھی، لیکن راستہ پُرا من نہیں ہے، یا ویزا میں کوئی رکاوٹ آگئی، ان تمام صورتوں میں انسان ’’غیرمستطیع‘‘ ہے، اس لیے حج فرض ہی نہیں ہوگا، تا آں کہ یہ اعذار ختم ہوجائیں۔

 حج کی فرضیت شرعی مصلحتوں کے علاوہ اپنے کو دوسرے سے ممتاز سمجھنے والی بیماری کو دور کرنے کے لیے ہے، یہ بیماری انسان ہیں ہوا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جہاں کوئی نہیں، وہاں ہوا، کا ٹھکانہ  ہوتا ہے، جو آدمی غریب ہے، پلاسٹ اور چھپر کے مکان  میں زندگی گذارتا ہے، خانہ بدوش ہے اس کے اندرخود کو ممتاز اور نما یاں کرنے کی بیماری پیدا ہی نہیں ہوتی، اس لیے غرباء پر حج فرض نہیں کیا گیا، آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ بلند وبالا نقشوں کی عمارتیں، قسم قسم کے ڈیزائن کے کپڑوں کا استعمال یہ خود کو الگ تھلگ اور ممتاز دِکھنے کے لیے ہی کئے جاتے ہیں، جینس پینٹ میں کئی کئی جگہ پھٹا ہونا خواتین کے کپڑوں میں آگے پیچھے لٹکتے ہوئے چتھرے، یہ سب امتیازہی کے لیے لیے تو ہیں، غریب تواپنا تن ڈھک لے یہی بڑی بات ہے، وہ قسم قسم کے ڈیزائن والے کپڑے کہاں سے لائے گا، اس لیے غریبوں کو اس سے الگ رکھا گیا اور امراء پرعموما اس بیماری کا غلبہ ہوتا ہے؛ اس لیے اس پر حج فرض کیا گیا۔

 حج صرف محبت وعبادت کا سفر نہیں ہے؛ بلکہ اس کی بڑی سماجی معنویت ہے، اس سفر کا آغاز احرام کے کپڑوں سے ہوتا ہے، یہ کپڑے سلے ہوئے نہیں ہوتے، اور عموما رنگین بھی نہیں ہوتے ؛ کیوں کہ ان سے امتیاز پیدا ہوتا ہے، ٹوپی کے مختلف ڈیزائن ہوتے ہیں اور یہ بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہم کس طرف کے ہیں، کس پیر کے مرید اور کس مسلک کے ترجمان ہیں؛ اس لیے ٹوپی سرے سے اتار دی جاتی ہے، تاکہ اللہ کے مہمان کی صرف ایک شناخت ’’ضیوف الرحمن‘‘ کی رہ جائے۔ احرام کے کپڑے لپیٹنے کے بعد کفن کی یاد آتی ہے، اور آدمی محسوس کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں اسی طرح کپڑوں میں لپیٹ کر لوگ قبر میں رکھ دیں گے، موت کی یہ یاد لوگوں کو اچھے کام کی طرف راغب کرتی ہے، اور گناہوں سے بچنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ احرام کی دورکعت نماز اللہ کی بندگی اور اس کی بڑائی کے استحضار کے لیے ہوتا ہے۔

 احرام کے کپڑے لپیٹنے کے بعد لبیک اللہم لبیک پڑھ تا ہے، اور بندہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں، تعریفیں اور نعمتیں سب تیری ہیں اور تیری حکومت میں کوئی شریک نہیں، یہ اعلان انسانی ذہن کو ایک خاص رخ پر لگا تا ہے، بندہ اللہ کی قدرت کا اعتراف کرتا ہے، اللہ کی بڑائی تسلیم کرتا ہے، اور اعلان کرتا ہے کہ اے اللہ تو ہی بڑا ہے، سماج کے سارے جھگڑے اپنے کو بڑا سمجھنے کی  وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں، ’’میں‘‘ نے اس دنیا کو تشدد کی آماجگاہ بنا دیا ہے، جب حاجی یہ ترانہ پڑھتا ہے تو اس کے ذہن سے اپنی بڑائی کا خیال جاتا رہتا ہے ۔

 وہ مکہ پہنچ کر اللہ کے گھر کا طواف کرتا ہے اور اللہ کی رحمتوں، برکتوں، نعمتوں سے بڑا حصہ پالیتا ہے، وہ حجر اسود کا بوسہ لیتا ہے، نہیں پہونچ پاتے تو دور سے ہی ہاتھوں کو حجر اسود کی طرف کرکے چوم لیتا ہے، حجر اسود کبھی سفید تھا، اب تو کالا ہی ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہم گورے ضرور ہیں، لیکن کا لے کو اپنے سے قریب کرنے بلکہ چومنے تک کے لیے تیار ہیں۔

 طواف میں پوری دنیا کے مختلف رنگ ونسل کے لوگ ہوتے ہیں، جو صرف اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے گھر کا طواف لگا رہے ہوتے ہیں، اس میں سماجی طور پر یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ رنگ ونسل، ذات وبرادری اور بود وباش کی اہمیت نہیں ہے، نہ کالے کو گورے پر اور نہ گورے پر کالے کوکو ئی فوقیت حاصل ہے، سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے۔

 طواف کرتے وقت داہنا کاندھا کھولا جاتاہے اور شروع کے چکر میں تھوڑا اکڑ کر چلا جاتا ہے، تاکہ دیکھنے والے جسم کی لاغری کو کمزوری نہ سمجھیں، اس کے اندر کی طاقت وتوانائی کو محسوس کریں اور کسی کو جسمانی اعتبار سے حقیر سمجھنے کا مزاج ختم ہوجائے، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر آدمی اپنی عاجزی، کم مائیگی اور فروتنی کا اقرار کرتا ہے، اٹھتے بیٹھتے اللہ اکبر کہہ کر اور سجدے میں سر رکھ کر تلبیہ میں جو اعلان کیا تھا اس کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے، اور کبر و انانیت سے پاک وصاف دل لے کر وہاں سے اٹھتا ہے، پھر شکم سیر ہو کر زمزم پیتا ہے، زمزم کا یہ پانی جسمانی وروحانی امراض کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ یہ چشمہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پیر رگڑنے سے پھوٹا تھا، یہ اللہ کی ذات پاک ہے جس نے پتھر یلی زمین سے میٹھے پانی کا چشمہ نکال دیا، یہ اللہ کی قوت کاملہ کی روشن دلیل ہے۔

 صفا ومروہ کا چکر لگاتے وقت اسے حضرت ہاجرہ کی وہ بے کلی اور بے چینی یاد آتی ہے جو وہ بچے کے لیے پانی کی تلاش میں برداشت کر رہی تھیں، جب بچہ نظر وں سے اوجھل ہوجاتا تو وہ کس طرح دوڑتی تھیں،’’ میلین اخضرین‘‘ اسی کی یا دہے، حضرت ہاجرہؑ کے اس عمل کی معنویت کو محسوس کرنے کی غرض سے عورتوں کو نہیں، مردوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ماں کی بے تابی اور بے چینی کو مرد بھی محسوس کریں۔

 یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حج کا سفر بیت اللہ کے نام پر ہی ہوتا ہے، لیکن سوائے طواف کے حج کا کوئی عمل بیت اللہ میں نہیں ہوتا، حج کے لیے انسان پہلے منیٰ جاتا ہے، جہاں خیموں کا شہر آباد ہے، بلند وبالا عمارت میں رہنے سے جو فخر اور امتیاز کی بیماری پیدا ہو گئی تھی، وہ ان خیموں میں رہ کر دور ہوجاتی ہے، پھر عرفہ جاتا ہے، وہاں بھی خیموں کا شہر، بندہ روتا ہے، گڑ گڑا تا ہے اور لمبی لمبی دعائیں مانگتا ہے، اس سے بندہ کا یقین اللہ پر مزید پختہ ہوجاتا ہے او راس کے ذہن ودماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ دینے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے، اللہ ہی بے نیاز ہے، بقیہ سب محتاج ہیں، محتاجوں سے کیا مانگنا، جو خود محتاج ہے وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔

عرفہ سے روانگی مزدلفہ کو ہوتی ہے، یہاں خیمہ بھی نہیں ہے، کھلے آسمان کے نیچے رات گذاریے، یہاں سماج کے وہ لوگ کثرت سے یاد آتے ہیں جو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، ان کی پریشانی، بے خوابی اور رات بھر کروٹ بدلنے کے کرب کاتھوڑا بہت احساس ہر ایک کو ہوتا ہے، یہاں کنکری چنتے ہونے خیال ان غریبوں کا بھی آتا ہے جو کھیت کھلیان میں کرے دانے دُنکے چُن کر اپنی زندگی گذارتے ہیں مزدلفہ سے لوٹ کر یہ کنکریاں جمرات پر ماری جاتی ہیں، یہ جمرات شیطان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ ماری گئی کنکریوں کی یاد دلاتے ہیں، لیکن اب تو شیطان نہیں ہے، یہ کنکریاں در اصل اپنے نفس امارہ کو ماری جاتی ہے اور اگرپہلے دن جمرہ عقبیٰ اور بقیہ دو دن تینوں جمرات کی رمی کے بعد نفس امارہ کی موت نہیں ہوئی اور انسان نفس مطمئنہ کے مرحلہ تک نہیں پہونچا تو سمجھنا چاہیے کہ کہیں کوئی کمی رہ گئی ۔ اس کے بعد قربانی دی جاتی ہے، قربانی کے جانور کو ذبح کے بعد وہاں دیکھنا ممکن نہیں ہوتا، لیکن اگر آپ دیکھ سکیں تو پائیں گے کہ جانوروں کی آنکھیں عموما کھلی رہتی ہیں، اور زبان حال سے یہ سوال کرتی ہیں کہ میں نے تو اللہ کے نام پر جان قربان کر دیا، لیکن کیا تم نے بھی اپنے دل میں چھپے کینہ، کدورت، فسق وفجور اور خواہشات کی قربانی دی، اگر آپ نے ایسا کر لیا تو میری قربانی رائیگاں نہیں گئی اور اگر ایسا نہیں ہوا تو میری قربانی رائیگاں چلی گئی، قربانی سے فارغ ہو کر وہ اپنے بال منڈواتا ہے تاکہ سابقہ زندگی کی کثافتوں کو اتار پھینکے اب وہ ایسا ہو گیا، جیسے وہ معصوم ساآج ہی پیدا ہوا ہے، ساری پاکی حاصل ہو گئی تو وہ احرام کے کپڑے اتار کر سلے ہوئے کپڑے پہن کر پھر کعبۃ اللہ آتا ہے، اور اللہ کی عظمت کے گن گان کرتا ہے، مدینہ طیبہ کی زیارت پہلے اگر نہیں کیا ہے تو وہ زیارت کے لیے جاتا ہے اور اس رحمۃ للعالمین پر درود وسلام پیش کرتا ہے، جن کی وجہ سے انسان کی زندگی میں انقلاب آیا؛ بلکہ یہ پوری کائنات ان کے صدقے اور طفیل میں بنی، مدینہ کے مقررہ ایام گذار کر حاجی اپنے گھر لوٹتا ہے، وہ وہاں سے کھجور اور زلزم کے ساتھ اللہ پر توکل، تحمل، برداشت اور ہر قسم کے تعصب سے پاک ہونے اور رہنے کا تحفہ لے کر اپنے گھر لوٹنا ہے، جس کی وسماجی اہمیت ومعنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

تبصرے بند ہیں۔