اسلام کي نظر میں انسانی جان کا احترام

ابو الطيب محمد محب الله بن محمد سيف الدين محمدي

(سپول، بہار)

اسلام کا ظہور جس زمانہ میں ہوا اس زمانہ میں انسان سے زیادہ ذلیل کوئی نہیں تھا انسانی وجود بالکل بے قیمت اور بے حقیقت ہوکر رہ گیا تھا بعض اوقات پالتو جانور بعض "مقدس” حیوانات بعض درخت جن کے ساتھ بعض عقائد وروایات وابستہ ہوگئی تھیں، انسان سے کہیں زیادہ قیمتی، لائق احترام اور قابل حفاظت تھے، ان کیلئے بے تکلف انسانوں کی جانیں لی جا سکتی تھی اور انسانوں کے خون اور گوشت کے چڑھاوئے چڑھائے جاسکتے تھے، قتل مرڈر، وکشت وخون کی ندیاں بہانے کیلئے معمولی واقعات ہی کافی تھے، جنگ کرنا اور خون بہانا ان کے لئے معمولی کام تھا، وائل کی اولاد، بکر وتغلب کے درمیان چالیس سال تک جنگ جاری رہی جس میں پانی کی طرح خون بہا ایک عرب سردار مہلہل نے اس کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ” دونوں خاندان مٹ گئے ماؤوں نے اپنی اولاد کھوئی، بچے یتیم ہوئے، آنسو خشک نہیں ہوتے، لاشیں دفن نہیں کی جاتیں، پورا جزیرۃ العرب گویا شکاری کا جال تھا، کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ کہاں لوٹ لیا جائے گا اور کب دھوکہ سے قتل کردیا جائے گا، لوگ قافلوں میں اپنے ساتھیوں کے درمیان سے اچک لئے جاتے تھے، یہاں تک کہ عظیم الشان سلطنتوں کو اپنے قافلوں اور سفارتوں کے لئے چوکی پہرہ اور مضبوط بدرقہ اور قبائل کے سرداروں کی ضمانت کی ضرورت پڑتی تھی۔(بحوالہ، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر صفحہ نمبر 63، بتصرف یسیر)

ایسے اوضاع واحوال میں نور اسلام طلوع ہوتا ہے، اور انسان کی قدر وقیمت کو منور کرکے اشرف المخلوقات کاخطاب دیتا اور انسان کا درجہ بلند کرتا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مقدس کے اندر ارشاد فرمایا "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ وَحَمَلْنَٰهُمْ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَرَزَقْنَٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ وَفَضَّلْنَٰهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍۢ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا(سورة الإسراء ٧٠)

ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دی اچھی روزی دی، اور بہت سی مخلوق پر فضیلت عطا کی،

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق زیست کی حمایت میں فرمایا کہ”لزوال الدنياء أهون على الله من قتل رجل مسلم ( رواه ابن ماجه ٢٦١٩)

یعنی اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل پوری دنیا کی بربادی سے بڑا جرم ہے، اس لئے اسلام کا فیصلہ ہے کہ دنیا میں زندگی، اور زندگی میں امن و سلامتی ہر انسان کا حق ہے۔

محترم قارئین ! اس وقت فضا مکدر اور گھٹن والی ہے، پورا عالم انسانیت مشرق سے لیکر مغرب تک شمال سے لیکر جنوب تک، فساد وبگاڑ کے جس دور سے گذررہا ہے وہ نہایت بھیانک خوفناک ہے،کہنے کو تو انسان نے بڑی ترقی کی ہے، اور نت نئی ترقیاں ہوتی جارہی ہیں، لیکن ان ترقیوں نے جہاں انسانوں کو سہولتیں اور آسانیاں دی ہیں وہیں ان کی ایجاد نے انسانی اقدار، اخلاق وکردار پیار ومحبت باہمی میل ملاپ اور احترام انسانیت کو خاک میں ملا دیا ہے، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اب تو انسانی جانوں کے بھی لالے پڑ گئیے ہیں، لوٹ مار قتل وخون ریزی، بم دھماکہ گولی فائرنگ ، ٹرین سے گراکر کسی معصوم کاخون کرنا، تیر وتفنگ لات جوتے کی مار، لنچنگ وگؤو رکھشک کے نام پر معصوموں کی جان لینا، وغیرہ روز مرہ کے معمولات بن گئیے ہیں، انسان کو انسان سے ڈر لگتا ہے، جنگل میں وحشی درندوں کے درمیان انسان تو محفوظ رہ سکتا ہےلیکن شہروں میں،آبادیوں میں اسکی جان ومال محفوظ رہے  اسکی کوئی ضمانت نہیں۔

چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے اس دور کاماتم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انسان کی سوئی ہوئی سبعیت وبہمیت پھر جاگ اٹھی ہے، وہ أشرف المخلوقات کی صورت سے آدمی مگر خواہشوں میں بھیڑیا، محل سراؤں میں متمدن انسان مگر میدانوں میں جنگلی درندہ اور اپنے ہاتھ پاؤں سے اشرف المخلوقات مگر اپنی روح بہیمی میں دنیا کا سب سے زیادہ خوانخوار جانور ہے۔

اب اپنی خوں ریزی کی انتہائی شکل اور اپنی مردم خوری کے سب سے بڑئے وقت میں آگیا ہے، وہ کل تک اپنے کتابوں کے گھروں اور علم و تہذیب کے دارالعلوموں میں انسان تھے، آج چیتے کی کھال اسکے چمڑے کی نرمی سے زیادہ حسین اور بھیڑئیے کے پنجے اسکے دندان تبسم سے زیادہ نیک ہیں درندوں کے بھٹ اور سانپوں کے جنگلوں میں امن وراحت ملے گی، مگر اب انسانوں کی بستیاں اور اولادآدم کی آبادیاں راحت کی سانس اور امن کے تنفس سے خالی ہوگئی ہیں، کیونکہ وہ جو خدا کی زمین پر سب سے اچھا اور سب سے بڑھ کر تھا، اگر سب سے برا اور سب سے کمتر ہوجائے تو جسطرح اس سے زیادہ کوئی اور نیک نہ تھا، ویسا ہی اس سے بڑھکر اور کوئی برا بھی نہیں ہوسکتا، شیر خوانخوار ہے مگر غیروں کے لئے، سانپ زہریلا ہے، مگر دوسروں کے لئے چیتا درندہ ہے، مگر اپنے سے کمتر جانوروں کے لیے لیکن انسان دنیا کی اعلی ترین مخلوق خود اپنے ہمجنسوں کا خون بہاتا اور اپنے ہی ابنائے نوع کیلئے درندہ خوانخوار ہے۔ (بحوالہ چراغ راہ صفحہ نمبر 134)

اسلام میں انسانی جان تو انسانی جان جانوروں کے جان کی بھی حفاظت کی گئی ہے، صحیح البخاری رقم الحدیث 2365، میں ہے کہ ایک عورت محض اسلئے جہنم کی آگ کا ایندھن بنا دی گئی کہ اس نے ایک بلّی کو گھر میں بند کردیا اور وہ بھوک سے تڑپ کر مرگئی، اس سے ہم سوچ سکتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں انسانی جان کی قیمت واہمیت اور اس کا اکرام واحترام کیا ہوگا۔

سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32، میں رب تعالیٰ نے فرمایا "مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ”

علامہ شوکانی نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ آیت کریمہ میں ایک شخص کے قتل کو تمام انسانوں کے قتل سے تشبیہہ کا مقصد یہ ہے کہ قتل ناحق کی شناخت کو واضح کرکے اس جرم کا اقدام کرنے والوں کو اس سے روکا جائے اور ایک شخص کے زندہ کرنے کو تمام انسانوں کے زندہ کرنے سے تشبیہہ کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو مجرموں کو معاف کرنے کی جانب راغب کیا جائے۔(بحوالہ فتح القدیر 2/45،)

قرآن کی بہت ساری آیتوں‌میں ناحق جان لینے سے منع کیا گیا ہے، سورة الأنعام کی آیت نمبر 151، "وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ”

یہی حکم سورہ الاسراء کی آیت نمبر 33، میں بھی ہے”

وَلَا تَقْتُلُواْ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِۦ سُلْطَٰنًا فَلَا يُسْرِف فِّى ٱلْقَتْلِ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ مَنصُورًا”  وغیرہ وغیرہ آیات میں قتل ناحق کی شناعت کو واضح کیا گیا۔

سنن ترمذی، ابواب التفسیر میں ایک حدیث ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” قیامت کے دن قاتل کی پیشانی کے بال اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کے گلے کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرئے گا کہ ائے میرے رب اس نے مجھے قتل کیا تھا یہاں تک کہ عرش کے قریب لے جائے گا، راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے توبہ کا ذکر کیا تو انھوں نے یہی آیت پڑھی ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَـًٔا ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَـًٔا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍۢ مُّؤْمِنَةٍۢ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦٓ إِلَّآ أَن يَصَّدَّقُواْ ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّۢ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍۢ مُّؤْمِنَةٍۢ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَٰقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍۢ مُّؤْمِنَةٍۢ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا, سورة النساء ٩٢) اور کہا کہ یہ آیت منسوخ ہے اور نہ بدلی گئی ہے پھر اس کی توبہ کیسے قبول ہوسکتی ہے،۔ ۔(بحوالہ تیسیر القرآن عبد الرحمن کیلانی 1/425،)

محترم قارئین! موجودہ دور میں انسان کو مکھی اور مچھر کی طرح مارا جاتا ہے اسکی ایک وجہ یہ بھی اسلام کا نظام قصاص نافذ نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے”ولكم في القصاص حيوٰة ” کہا ہے، قصاص میں زندگی ہےتمہارے لئے(سورة البقرة ١٧٩) اگر قصاص کے نظام پر عمل کیا جائے تو ان شاءاللہ جرم وفساد کم ہوجاےگا، اور قصاص کے خوف سے قتل کے مجرموں کو جرم کا حوصلہ نہ ہوگا،

لہٰذا : ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو ناحق خون کرتے ہیں،معصوم پھولوں کو کھلنے سے پہلے ہی ختم کردیتے ہیں، بم دھماکے کے ذریعے، یا لشکر وتلوار کے ذریعہ، اور مجرم کا پتہ ہی نہیں چلتا ہیں، بھیس بدل لیتے ہیں اور مسیحا بن جاتے ہیں،

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد میں مدینہ منورہ میں ایک شخص کاقتل ہوگیا اور قاتل کا پتہ نہ سکا آپ نے منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ میرے ہوتے ہوئے قتل کا جرم واقع ہورہا ہے، اور قاتل کا پتہ نہیں چل رہا ہے یاد رکھوں اگر زمین وآسمان کے لوگ اجتماعی طور پر کسی کے قتل میں شریک ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب دے گا۔ (بحوالہ  المعجم الكبير للطبراني ج ١٢، صفحه ١٠٣ تا ١٠٤،رقم الحديث ١٢٦٨١۔)

معزز قارئین!

  پورے عالم بالخصوص برصغیر ہند وپاک کی حالات انتہائی دردناک اور خوں چکاں ہے، ہردن کا سورج کسی معصوم کے قتل کا داستان غم سناتا ہے، ہر شام اور ہرصبح قتل ومرڈر کے واقعات بیان کرتا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ چنگیزی دور ہے یا ہلاکو خان، اتنے خون اتنے قتل، اور اتنی جانوں کاتلف، ذرا ذرا سی بات پر سرپھٹول لڑائی ودنگا، اور موت کی نیند سلا دینے والی خبریں یقینا بہت تشویشناک ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔