ماہ نامہ تہذیب الاخلاق، مئی 2023

سہیل بشیر کار

مولانا سعود عالم قاسمی عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب دل بھی ہیں۔ آپ کی درجنوں کتابوں کو خوب پزیرائی ملی۔ آپ جہاں قدیم علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں وہیں جدید علوم پر بھی آپ کی اچھی گرفت ہے۔ آپ جرتمند اور بلند حوصلہ ہیں۔ یہ چیزیں مدیر رسالہ میں ہونی ہی چاہیے۔  یہی وجہ ہے کہ جب سے آپ نے علی گڈھ سے شائع ہونے والا رسالہ ‘تہذیب الاخلاق’ کی ادارتی ذمہ داری سمبھالی ہے؛ رسالہ خوب سے خوب تر ہوتا جا رہا ہے۔ رسالہ کا اداریہ انتہائی اہم اور وقت کی ضرورت ہوتا ہے۔ عظیم مربی و محسن سرسید احمد خان نے رسالہ ‘تہذیب الاخلاق’ کو جاری کیا تھا۔ یہ رسالہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آج بھی شائع ہو رہا ہے۔

مئی 2023 کے شمارے کا اداریہ  بے باکی و جرات مندی کی عمدہ مثال ہے۔ مدیر نے این سی ای آر ٹی کے ذریعہ تاریخ، سیاسیات اور سائنس کے تعلیمی مواد میں جو ردوبدل کیا  ہے؛ اس کا خوبصورتی سے جائزہ لیا ہے۔ مدیر محترم نے ان تبدیلیوں کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر امجدعلی شاکر نے سرسید احمد خان کی تبصرہ نگاری پر ایک بہترین مضمون لکھا ہے، مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسید احمد خان جہاں مختلف موضوعات پر لکھتے تھے؛ وہیں آپ بہترین تبصرہ نگار بھی تھے۔ حواشی نے اس مضمون کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔ کتابوں کے عالمی دن کے حوالے سے راقم کا ایک مضمون شامل ہے؛جس سے مطالعہ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

مشہور محقق پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بین المسلکی اتحاد پر بہترین مقالہ لکھا ہے۔ حال ہی میں مولانا سید رابع حسنی ندوی کا انتقال ہوا۔ آپ جہاں ندوہ کے ناظم اعلیٰ تھے وہیں ’مسلم پرسنل لا بورڈ‘ کے صدر بھی تھے۔ مدیر رسالہ پروفیسر مولانا سعود عالم قاسمی نے مولانا سید محمد رابع کے زندگی کے اہم گوشوں کو اجاگر کیا ہے، یہ مضمون ایک صاحب دل نے دوسرے صاحب دل کے متعلق لکھا ہے لہذا اس کو پڑھ کر قاری عجیب کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ امہات المومنین کی عظمت و فضیلت پر ڈاکٹر افضل مصباحی نے ایک خوبصورت مضمون لکھا ہے، مختصر مگر جامع مقالہ میں امہات المومنین کی زندگی کے مختلف گوشوں کو پیش کیا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس مضمون کو خوب پھیلایا جائے۔

 مولانا روم ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے تھے جو پرامن ہو، جہاں محبت ہو۔ رسالہ میں مولانا رومی اور احترام آدمیت پر ایک عمدہ مضمون ڈاکٹر عبید اقبال عاصم کا شامل ہے، ہندوستان کی آزادی میں اردو صحافت کا کیا رول رہا؛ اس سلسلے میں ڈاکٹر طالب اکرام کا ایک مضمون ’’آزادی ہند اور اردو صحافت‘‘ شامل ہے۔ ضرورت ہے کہ اس مضمون کا ترجمہ ہندی اور انگریزی میں کیا جائے تاکہ جو غلط فہمیاں مسلمانوں کے متعلق پھیلائی جارہی ہیں؛ ان کا ازالہ ہو۔ اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق پروپیگنڈا کیا گیا۔ آپ پر بے بنیاد الزامات لگائے گیے۔

 ڈاکٹر عنایت اللہ خان کا ایک مضمون ’’اورنگ زیب عالمگیر :ایک نیا زاویہ نظر‘‘ شامل رسالہ ہے۔ یہ مضمون پڑھ کر اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں۔ ہندوستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے مغربی ایشیا پر انحصار کرتا ہے اس کے علاوہ ہندوستان کے 90 لاکھ لوگ خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں۔ ایسے میں مسلمان ممالک کے باہمی تعلقات اور بھارت پر لکھنے کی ضرورت تھی۔ رجنیش کمار کا اس بارے میں اہم مضمون شامل کیا گیا ہے۔ مضمون نگار نے اس حوالے سے مختلف نکات کو واضح کیا ہے۔ ڈاکٹر سنجے کمار نے کسان تحریک 1932 (بھرواری) کے مجاہدین پر ایک علمی مضمون لکھا ہے۔ میگزین میں پروفیسر حافظ شائق احمد یحییٰ نے پرندوں پر ایک علمی مضمون ’’باربٹ پرندروں کی افزائش نسل‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے، سائنس کے طالب علموں کے لیے یہ نہایت ہی اہم مضمون ہے۔

تہذیب اخلاق کا سالانہ زرتعاون صرف 200 روپے ہے۔ رسالہ جاری کرانے کے لئے موبائل نمبر 9634459112 سے رابطہ قائم کریں۔

مبصر سے رابطہ: 9906653927

تبصرے بند ہیں۔