حرم رسوا ہوا پیرحرم کی کم نگاہی سے
ممتاز میر
ہمارے شہر میں تین عید گاہیں ہیں اور طول وعرض میں اتنی ہی بڑی ’’شاہی‘‘ جامع مسجد بھی ہے۔ ہماری جامع مسجد دلی کی شاہجہانی جامع مسجد سے بھی پرانی ہے۔ یہاں بھی دلی کی طرح شاہی امام ہیں اور بخاری بھی ہیں۔ بالکل دلی والوں کی طرح۔ بچپن میں جب ہمارا علم بہت کم تھا (آج بھی کم ہی ہے)اور عبداللہ بخاری مرحوم کے بڑے جلوے تھے۔ ہم نے بخاری کی وجہ تسمیہ پوچھی تو کسی من چلے کہا کہ جو قوم کو بخار میں مبتلا کردے۔۔
خیر عید گاہوں میں ہونے والی نماز عموماً تاخیر سے ہوتی ہے۔ اب تو نہین ہوتا مگر ہمارے بچپن میں آس اپس کے گاؤں دیہات کے وہ لوگ بھی جو سال میں صرف دو نمازیں پڑھتے ہیں عید گاہ میں جمع ہو جاتے تھے۔ اور نہ صرف یہ کہ خود آتے تھے بلکہ نا سمجھ بچوں کو بھی ساتھ لے آتے تھے۔ شاید اس لئے کے جو کچھ وہ بن چکے ہیں ان کے بچے نہ بنیں۔ مئی جون میں تاخیر سے کھلے میں نماز پڑھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اس بار لوگوں نے ۴؍۵ منت کی دعا میں امام محترم کا ساتھ دل سے نہ دیا بلکہ ان کے دلوں میں تو یہ دعا گونج رہی تھی ’’شب انتظار آخر کبھی ہوگی مختصر بھی ‘‘۔
اکثر حضرات تو وہاں سے اٹھ کر جہاں انھوں نے نماز پڑھی تھی چھاؤں میں آگئے تھے۔ ہر ایک کی زبان پر یہ بات تھی کہ اتنی لمبی دعا مانگنے کی کیا ضرورت تھی؟ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمارے امام لمبی لمبی دعائیں کیوں مانگتے ہیں ؟شاید اس لئے کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے ’’دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘اب وہ قوم جو اپنے سارے ہتھیار پھینک چکی ہو وہ دعا بھی نہ مانگے تو کیا کرے؟ہمارا کہنا یہ ہے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے والی حدیث ہمارے لئے نہیں ہیَ وہ صحابہء کرام کے لئے تھی اس حدیث کو پڑھنے سے پہلے ہمیں سورۃ الرعد کی وہ آیت بھی پڑھنی چاہئے جس کا منظوم ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے یوں کیا تھا۔ ۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ؍ نہ ہوجس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
چند سال پہلے ہمیں اپنے برادر خورد نے ایک معاملے میں دعا کرنے کو کہا جسے ہم نے سختی سے مسترد کردیا۔ اس لئے کہ انھوں نے مسئلے کے حل کے لئے خود کوئی عملی کوشش کرنے کے بجائے دعا سے کام چلانے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ دعا صرف ان لوگوں کے لئے ہتھیار ہے جو عملی کوششیں کرتے ہوئے جان لڑا دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہمارے کم وبیش سارے امام بقول علامہ اقبالؒدو رکعت کے امام بن چکے ہیں۔ خطبے سے پہلے تو قوم کو ۱۵؍۲۰ منٹ کا ’’چورن‘‘ دیتے ہیں۔ پھر لمبی لمبی قرات کرکے نماز پڑھاتے ہیں۔
پھر اس وقت تک دعا کراتے ہیں جب تک ان کا جی نہیں بھرتا۔ یہ سب کرتے ہوئے انھیں ایک لمحے کے لئے بھی بوڑھوں بچوں اور عورتوں کا خیال نہیں آتا۔ شایداسی لئے ہم عورتوں کو مسجد میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ جو خیال کرنا تھا حضور ﷺ کر لئے۔ اب اسوہء حسنہ پر چلنا قوم کے لئے تو ضروری ہے ہمارے ائمہ کے لئے نہیں۔ ہم نے کتنے ہی ایسے امام دیکھے ہیں جو ۸۔ ۱۰ منٹ مین ۴ رکعت کی جماعت کراتے ہیں مگر جب وہی اپنی انفرادی ۴ رکعت پڑھتے ہیں تو انھیں تین ساڑھے تین منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ جبکہ حضور ﷺکا عمل اس کے بر عکس تھا۔ بڑی مشہور بات ہے کہ حضور ﷺ جب انفرادی نماز پڑھتے تھے تواتنا طویل قیام کرتے تھے کہ خون پیروں میں اتر آتا تھا مگر جب جماعت کراتے تواس لئے مختصر کرتے تھے کہ انھیں بوڑھوں بچوں اور عورتوں کا خیال رہتا تھا۔
حدیث تو یہ بھی کہتی ہے کہ دعا مختصر مگر جامع ہو۔ مگر اکثر و بیشتر ہمارے امام لمبی لمبی دعائیں ہی کرتے ہیں۔ اور اہل تبلیغ کا تو کہنا ہی کیا۔ ہمیں آج تک یہ سمجھ نہ آئی کہ ہمارے امام لمبی لمبی نماز اور لمبی لمبی دعائیں کیوں کراتے ہیں۔ شاید اسلئے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ عملی کوششیں تو ان کے بس کی بات رہی نہیں۔ اور قوم سوال نہ کرے اسلئے اسلام کے اصلی مزاج کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔
ایک بار ایک درس قرآن میں سورہء اخلاص کا درس دیتے ہوئے ایک مولوی صاحب نے فرمایا کہ قرآن کے ہر ہر حرف کی تلاوت پر اتنی اتنی نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ مجرد تلاوت پر (اس وقت ہمیں تلاوت کے معنی معلوم نہ تھے)انھوں نے کہا، ہاں۔ اس کے بعد ہم نے ایک مضمون لکھا جس میں ہم نے لکھا کہ اگر ہم گھر میں بیٹھ کر ۲۴ گھنٹے تلاوت کر رہے ہیں اور گھر کے باہر شیطان اور اس کی ذریت ننگا ناچ ناچرہی ہو تو ایسی تلاوت باعث ثواب نہیں باعث عذاب ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے علماقوم کے سامنے صٓحیح اسلام پیش کیوں نہیں کرتے۔ غالباً اسلئے کہ پھر انھیں خود قوم کے لئے نمونہ بننا پڑے گا۔ اور یہ رویہ میٹھی میٹھی شریعت والوں کا نہیں سبھی کا ہے۔ بعد میں جب ہمیں تلاوت کے معنی معلوم ہوئے تو پتہ چلا کہ تلاوت ہمارے عوام کیا مولوی ملا بھی نہیں کرتے، ورنہ قوم کی حالت یوں خراب نہ ہوتی۔
ٹھیک سے یاد نہین، غالباً عبداللہ ابن عمرؓ یا عبداللہ ابن عباسؓنے کہا تھا کہ ہم نے سورہء بقرہ کی تلاوت۸ ٌ سال میں کی تھی۔ جبکہ ہمارے عجمی علماء کرام اولیا و صوفیا عظام ایک رات میں کئی کئی بار پورے قرآن کی ’’تلاوت ‘‘ کر لیتے تھے۔ قریب ایک دہائی قبل مغرب سے ایک اصطلاح آئی ہے۔
ٹائم مینجمنٹTime Management ہمارے گاؤں دیہات کے علماء کے کان تو شاید اب بھی اس سے نا آشنا ہوں۔ ہاں بمبئی میں اس کا بڑا چرچا رہا۔ پہلے پہل تو ہم بھی اسے سمجھ نہ سکے تھے۔ مگر جب سمجھ میں آئی تو احباب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ وہ مسلمان جو پانچ وقت کی نمازیں با جماعت پڑھتے ہوں انھیں ٹائم مینجمنٹ پر لکچر دینے کی ضرورت نہیں مگر ہمارے ان ائمہ کرام کو یہ سمجھا نا بہت ضروری ہے جوعید کی نماز کا وقت ۸ بجے دے کراپنے وعظ کا شوق پورا کرنے کی خاطرعوام کو دھوپ میں بٹھا کر جماعت سوا ۸ بجے کراتے ہوں۔ ہم علامہ اقبال کی بصیرت کے قائل ہیں۔ شاید اسی لئے انھوں نے کہا تھا
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
تبصرے بند ہیں۔