اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو

حفیظ نعمانی

وزیراعظم نریندر مودی نے پہلے دن سے اب تک سیکڑوں بار ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ تو دیا مگر چار سال میں نظر یہ آیا کہ نہ سب کا ساتھ دیا اور نہ سب کا وکاس کیا۔ وہ بات جو سب سے زیادہ خطرناک ہے یعنی غنڈوں لفنگوں اور آوارہ گردوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی کھلی چھوٹ دے دی اور اس کا جو بھیانک انجام سامنے آیا وہ نہ کسی وزیراعظم کے دَور میں آیا اور نہ کسی وزیراعلیٰ کے دَور میں۔ پورے ملک میں جہاں جب جس کا جی چاہتا ہے وہ لفنگوں کی فوج بناتا ہے اور گئو ہتیا یا بچہ چوری کا نعرہ بلند کرکے قانون ہاتھ میں لے لیتا ہے اور دو کی یا ایک کی جان چلی جاتی ہے۔ اور وزیراعظم کی تقریروں سے ان غنڈوں کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے پردھان منتری ہم سے خوش ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر پولیس ہوتی بھی ہے تو وہ تماشہ دیکھا کرتی ہے۔

دارالعلوم دیوبند میں حدیث کے بڑے اور محترم استاد جو جمعیۃ علماء ہند کے صدر بھی ہیں انہوں نے عید ملن کی عظیم الشان تقریب منائی جس میں نائب صدر محمد حامد انصاری، احمد پٹیل، غلام نبی آزاد، سیتا رام یچوری، اروند کجریوال وغیرہ کے دوش بدوش ملک کے کالے بالوں والے لیڈروں اکھلیش یادو، تیجسوی یادو، جینت چودھری، دپندر ہڈا کو بھی اسٹیج پر بٹھایا اور تسلیم کیا کہ اب ملک کی کشتی کے ناخدا یہی ہوں گے اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے فرقہ پرستی کو ٹھوکر سے مارا ہے۔ جینت چودھری نے کیرانہ اور نور پور میں اس نعرہ کو جوتے سے مسل دیا جو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے لگایا تھا کہ اگر بی جے پی ہاری تو ہر مسلمان کے گھر میں مسٹر جناح کی تصویر نظر آئے گی۔ یہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ کے وزیراعلیٰ ہیں جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ جناح صاحب 70  برس پہلے ان مسلمانوں کے لیڈر تھے جنہوں نے پاکستان بنوایا ان کے نہیں تھے جنہوں نے اس کی مخالفت کی تھی اور اب تو یوگی جی کو یاد ہوں گے ہم نے اتنی عمر میں بھی کسی مسلمان کی زبان سے اس مسلمانوں کے دشمن کا نام بھی نہیں سنا۔

یہی انداز ان کے گرو نریندر بھائی مودی کا ہے کہ انہوں نے جنگ آزادی کے جنوبی ہند کے سب سے بڑے ہیرو ٹیپو سلطان کی طرف انگلی اٹھادی۔ وہ کہتے ضرور ہیں کہ میں نے تاریخ پڑھی ہے لیکن کون سی اور کس کی لکھی ہوئی پڑھی ہے یہ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ ٹیپو سلطان یعنی بادشاہ تھے اور پنڈت نہرو بھگت سنگھ سے جیل میں ملنے نہیں گئے۔

چار سال میں وزیراعطم کی تقریروں نے ملک کا مزاج کسی حد تک بدل دیا ہے کہ ایک مسلمان لڑکا اپنی ہندو بیوی کے ساتھ پاسپورٹ بنوانے جاتا ہے تو ایک افسر اس سے کہتا ہے کہ اپنا نام بدلو دھرم تبدیل کرو سات پھیرے لو اس کے بعد پاسپورٹ بنے گا۔ اور جب وہ ہندو بیوی جو ایک افسر ہے وہ وزیرخارجہ سوشما سوراج کو فون کرکے اپنی پریشانی بتاتی ہے تو اٹل جی کے ساتھ چھ سال حکومت میں رہنے والی سوشما کی رگ انصاف پھڑکنے لگتی ہے اور نہ صرف ان دونوں کو پاسپورٹ مل جاتا ہے بلکہ اس افسر کا بھی فی الحال گورکھ پور تبادلہ کردیا جاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر وزیرخارجہ مسز اسمرتی ایرانی یا ان جیسا کوئی ہوتا تو پلٹ کے جواب بھی نہ دیتا۔ اور اس ذلیل افسر نے جو کیا وہ صرف وزیراعظم کی ان تقریروں کا اثر ہے کہ جس میں وہ ہر جگہ کہتے رہے ہیں کہ قبرستان کے لئے زمین دیتے ہو تو شمشان گھاٹ کے لئے بھی دو اور رمضان میں بجلی دیتے ہو تو دیوالی میں بھی دو۔ جبکہ نہ کسی قبرستان کو زمین دی نہ شمشان کے لئے انکار کیا۔ اور رمضان میں بجلی کا کسی نے ذکر بھی نہیں کیا جبکہ دیوالی میں صرف بجلی ہی بجلی ہوتی ہے۔

وزیراعظم نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے بارے میں جس انداز اور لہجہ میں کہا وہ نہ کہنے سے بدتر ہے اگر وہ سنجیدہ ہوتے اور غنڈوں کی اس فوج سے انہیں پیار نہ ہوتا تو وہ ہر وزیراعلیٰ کو حکم دیتے کہ جو قانون ہاتھ میں لے اس ہاتھ کو توڑ دو۔ اور اگر صرف دو ہاتھ ٹوٹ جاتے تو مودی جی کی حکومت میں کوئی قانون کو ہاتھ میں نہ لیتا۔ انہوں نے دادری کے اخلاق مرحوم کی شہادت پر جیسے خاموشی اختیار کی اس نے ہی اس طرح شہید کئے جانے والے مسلمانوں کی تعداد 100  کے قریب پہونچا دی اور یہ آر ایس ایس کی تربیت کااثر ہے کہ وہ سب کا ساتھ سب کا وکاس اب بھی جپ رہے ہیں۔

اے بی پی نیوز اور سی ایس ڈی ایس موڈ آف دی نیشن کے سروے کی مانیں تو اس نے صاف صاف کہا ہے کہ نریندر مودی کی زیرقیادت این ڈی اے کی حکومت میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ وہ 2019 ء کے بعد لوک سبھا چنائو میں حکومت کرنے کے قابل سیٹیں لاسکے۔ کم لوگ یہ مان رہے ہیں کہ ان کو دوسرا موقع دیا جانا چاہئے۔ اور بات وہی ہے کہ وہ بھنور میں پھنس گئے ہیں ۔ یا تو وہ کہیں کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی آر ایس ایس کا حکم تھا۔ اگر اس کا نہیں تھا اور اس نے مودی جی کو کھلی چھوٹ دے دی تھی تو انہوں نے جو کیا اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ اتنی بڑی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ اپنے سے زیادہ قابل تجربہ کار اور کسی مقبول لیڈر کو حکومت میں نہیں لیا بلکہ انہوں نے سنار کا کام لوہار سے اور لوہار کا کمہار سے کپڑے بنانے کا کام دھوبی سے اور کپڑے دھونے کا کام مالی سے لینے کا نیا تجربہ کیا۔ اور یہ اس کا نتیجہ ہے کہ جہاندیدہ اور سیاسی ماہر کہہ رہے ہیں کہ 2019 ء کے بعد مودی جی گھر چلے جائیں گے۔

یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ امریکہ کی سی آئی اے نے وشو ہندو پریشد کو کھل کر دہشت گرد کہا راجہ دگ وجے سنگھ نے کہا کہ جتنے بھی ہندو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوئے سب کا رشتہ آر ایس ایس سے ہے اور بنگال کی شیر دل وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کہہ رہی ہیں کہ بی جے پی دہشت گرد ہے جو اُن کا انکائونٹر کرنا چاہتی ہے۔ اگر کسی وزیراعظم نے اپنی یہ تصویر بنائی ہے تو اسے ہندوستان کی بدقسمتی کہا جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔