حضرت مولانا حبیب اللہ شاہ ؒ
الطاف جمیل ندوی سوپور
تحریک اسلامی نے روز اول سے ہی ایسے غیور افراد اہل علم و دانش قوم و ملت کو دئے جن کے کار ہائے نمایاں تاباں اور درخشاں ہیں جن کی کاوشوں اور محنت و لگن جن کی للہیت اور علم و ادب کی گہرائیوں سے مزین فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے سبب ہزاروں بندگان رب الکریم کو ایمان کی لذت سے سرشار ہونے کا شرف ملا۔
تحریک اسلامی جموں و کشمیر کے صف اول کے رہنما جن کی باپت مختلف علمی و ادبی شخصیات نے لکھا جن میں نمایاں طور پر مکرمی محمد فاروق خاکی صاحب ہیں جنہوں نے قائدین تحریک اسلامی کا تعارف کروایا ہفتہ روزہ مومن ترجمان تحریک اسلامی کے ذریعے سے بھی مختلف شماروں میں اس سلسلے میں لکھا گیا پر دل میں ایک چبھن سی تھی کہ بارہمولہ کے مرد حر خطیب و امام داعی دیں کے بارے میں کوئی صاحب لکھنے میں پہل نہیں کرتا عظیم شخصیات پر لکھنا کار دارد والا معاملہ ہوتا ہے پر اپنی استعداد تک کا حق ادا کرنے کی سوچ کر اپنے مشفق و مربی معلم بارہمولہ کے خطیب کے سلسلے میں کچھ لکھنے کی ہمت بندھی ہے میں نے مولانا کو زمانہ طالب علمی میں دیکھا جی بھر کر دیکھا بہت بار ان کے سامنے گیا ان کی باتیں سنیں ان کے نصائح سنے مسجد میں اکثر انہیں کے پیچھے نماز جمعہ ادا کرتا ان کی وہ نورانی شکل و صورت اب بھی نگاہوں کے سامنے ہی ہے ان کا وہ مسجد میں آکر خطابت کے فرائض کے دوران حرکات و سکنات وہ اپنے بازو کا لہرانا توحید و سنت کا بیان کرنا علم و دانش کے وہ موتی بکھیرنا بڑھاپے میں بھی وہ تبلیغ کا انداز جسے مجھ جیسا طالب علم بولا نہیں سکتا ۔
مجھے ان سے ہمیشہ عقیدت رہی ان کے ہاتھوں کا لمس اور وہ مومنانہ نگاہیں مجھے اب بھی یاد ہیں ان کے چہرے پر سنت نبوی کے مطابق رکھی داڑھی ان کے سر پر بندھا وہ عمامہ مجھے اب بھی یاد ہے پر میں اس شخصیت کا خاکہ گرچہ دل میں محسوس کرتا ہوں پر لکھنے کے لئے مجھے الفاظ کے انتخاب میں الجھن ہو رہی ہے کیوں کہ میں جانتا ہوں جن کے بارے میں لکھنے کا ارادہ ہے وہ اپنی زات میں ایک انجمن تھے ایک کارواں تھے وہ تنہا اک تحریک تھے۔
مولانا حبیب اللہ شاہ ولد جلال الدین شاہ اصل میں زینگیر علاقہ سے تھے جن کے والد محترم نے تلاش معاش کے سلسلے میں بارہمولہ میں سکونت اختیار کی یہاں اس زمانے میں علمی افق پر شیخ تھانوی رحمہ اللہ کے شاہگرد سید عبد الولی رحمہ اللہ مسند درس و تدریس میں مشغول تھے مولانا حبیب اللہ شاہ نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ رکھ دئے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے سید عبدالولی جو کہ شرک و بدعات کے سخت مخالف تھے جس کی بناء پر موروثی طبقہ ان کی مخالفت میں پوری قوت سے مصروف تھا اس وقت مولانا حبیب اللہ شاہ نے ان کا ساتھ دیا سید عبدالولی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جو اسلام پسندوں کی پسندیدہ شخصیت پوری ضلع میں تھی وہ تھی مولانا حبیب اللہ شاہ صاحب کی شخصیت جو کہ اپنی زات میں ایک انجمن تھی سادگی پرہیزگاری تقوی شعاری ان کا طرہ امتیاز تھا ان کی ہر حرکات و سکنات سے ان کی اسلام پسندی ظاہر ہوتی تھی جاننے والے جانتے ہیں کہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے لئے بارہمولہ اوڑی رفیع آباد اکثر جایا کرتے تھے محترم ضیغم صاحب جو بقید حیات ہیں ان کی رفاقت میں دن بھر سائیکل پر دعوتی کام کیا کرتے تھے مولانا کا سب سے بڑا کارنامہ ایک ادارے کی بنیاد رکھنا تھا جو پہلے پہل ضیاء الاسلام کے نام سے شروع ہوا بعد اور آج ضلع بارہمولہ کے افق پر نور الاسلام کے نام سے چمک رہا ہے جہاں سے پورے ضلع کے علم کے شیدائی طلبہ کو علم و ادب کی رہنمائی ملی بھی اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے مولانا علم و ادب کے شیدائی تھے یہی وجہ تھی کہ مولانا نے علمی افق پر یہ ستارہ روشن کر ادیا۔
بارہمولہ میں امیرشاہ کے نام سے موسوم مسجد کی نئی تعمیر میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اس مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کیا اہل ثروت افراد سے ملاقاتیں اس کی تعمیر کے لئے میٹیریل جمع کرنے میں رات دن ایک کیا جب مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو ڈھاکہ بنگہ دیش میں جماعت اسلامی کی مسجد بیت المکرم کے نام سے اس مسجد کا نام رکھا گیا جامع بیت المکرم جہاں مولانا عمر کے آخری دنوں تک خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے ( یاد رہے کہ ۲۰۰۵ کے شدید زلزلے نے اس مسجد کو بھی نقصان پہنچایا اس لئے جماعت اسلامی کے ضلعی نظم کی نگرانی میں اس کی تعمیر نئے سرے سے کی گئی جو کہ اب تک جاری ہے ) ان کے خطاب کا عالم یہ تھا کہ پوری مسجد میں موجود نمازیوں پر ان کی تبلیغ کا ایسا سحر ہوا کرتا تھا کہ ہمہ تن گوش لوگ ٹک ٹکی باندھ کر مولانا حبیب اللہ کو دیکھتے رہتے اور سنتے رہتے دور و نزدیک دھاتوں میں رہ رہے اکثر لوگ جمعہ کے دن صبح سویرے بارہمولہ کا رخ کرتے تاکہ مولانا کی اقتدا میں نماز ادا کرسکیں سفر کی صعوبتیں تب زیادہ ہوا کرتی تھیں جب سڑکوں کا کوئی خاص انتظام نہ تھا مختلف دھاتوں میں سنا ہے کہ لوگ پیدل ہی جاتے تھے یہاں نماز ادا کرنے کے لئے مولانا کی تبلیغ میں بلا کی روانی تھی کبھی بیچ بیچ میں ایسا گرجتے تھے کہ دل دھل جاتے تھے ہمارے ہاں کے ایک صاحب کہتے ہیں ایسا لگتا تھا کہ ہر دیوار سے مولانا تبلیغ کر رہے ہیں ان کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ ان کی کبھی مدہم تو کبھی گرج دار باتیں دلوں میں ارتعاش پیدا کردیتی تھیں مولانا گونا گوں صفات کے مالک تھے۔
مولانا کی زندگی میں ہی ان کی محنت رنگ لائی جس ننھے سے پودے کو انہوں نے اپنے تحریک اسلامی کے رفقاء کے ساتھ مل کر لگایا تھا اس کا عروج مولانا نے اپنی نگاہوں سے جیتے جی دیکھا میری مراد ہے دارلعلوم المصطفوی جب تحریک اسلامی کے رفقاء و اراکین نے محسوس کیا کہ ضلع میں ایک ادارہ ایسا ہو جو نئی نسل میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے کردار ادا کرے تو اس سلسلے میں بھی جماعت اسلامی کے زمہدارں نے مولانا کا ہی انتخاب کیا چونکہ مولانا کافی عرصہ تک جماعت اسلامی کے ضلعی نظم میں امیر ضلع کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے اور مولانا کی پوری وادی میں بالعموم ضلع بارہمولہ میں بلخصوص ایک مخصوص پہچھان تھی اس لئے مولانا کی شخصیت کا انتخاب کیا گیا جس کا نتیجہ بہتر رہا ادارے کو پہلے پہل اسی جامع بیت المکرم میں شروع کیا گیا جس کی تعمیر و تجدید میں مولانا کے کام کو بول جانا ممکن ہی نہیں پھر کچھ عرصہ بعد ہی نامساعد حالات سے پریشان ہوکر تحریک اسلامی کے نظم نے فیصلہ کیا کہ ادارے کو منتقل کیا جائے توحید گنج برلب دریا جہلم اس کی تعمیر کے لئے ایک قطعہ اراضی پر جوکہ تحریک اسلامی کا ہی اثاثہ تھا ۔
تعمیر جدید کا کام شروع کیا گیا جس کی بنیاد ۱۹۸۶ میں مولانا حکیم غلام نبی امیر جماعت اسلامی جمون و کشمیر کے ہاتھوں رکھی گئی یہاں ادارے کی تعمیر میں رفقاء جماعت نے انتھک محنت شاقہ کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ افرادی قوت بھی میسر رکھی گئی پتھروں کو ڈھونے میں رفقاء جماعت کا جذبہ ایثار قابل دید ہوتا تھا اس ادارے بنام دارلعلوم المصطفوی کی تعمیر و ترقی کے لئے مولانا نے اپنا دن رات ایک کردیا رب الکریم کی رحمتوں کے سہارے اس کی تعمیر کے بعد بیت المکرم سے مدرسہ کے طلبہ کو نئی بلڈنگ میں منتقل کیا گیا منتقلی کے وقت بانی جماعت اسلامی مولانا سعد الدین صاحب رحمہ اللہ کے علاوہ قاری سیف الدین صاحب رحمہ اللہ کے علاوہ جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ عوام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی قاری صاحب نے اس موقع پر اپنے مخصوص ڈھنگ سے خطاب فرمایا ادارہ اب بھی جانب منزل رواں دواں ہے مولانا تا حیات اس کے مہتمم اعلی رہے مولانا حبیب اللہ شاہ علم کے شوقین تھے ان کا مطالعہ وسیع تھا ان کی علمی لیاقت اعلی تھی لوگ اکثر اپنے مسائل لے کر آتے مولانا ان کی تشفی فرماتے۔
مولانا کی وفات کے بعد ان کی تعزیتی مجلس میں تعزیت پر آئے ایک غیر مسلم رو پڑے یہ کہہ کر کہ ہمارا ہمدرد نہ رہا جو ہماری مدد کیا کرتا تھا جن کی شفقت تھی ہمارے لئے مولانا کسی کی محبت یا تعلق کا کبھی لحاظ نہ کرتے تب جب مسئلہ ایمان کا ہوتا بغیر لاگ لپٹ کے اظہار حق کردیتے تھے مسجد محلہ بازار گھر ہر جگہ اظہار حق کرنے کے لئے مستعد ہوتے تھے مجھے یاد ہے کہ سوپور کا ایک وفد آیا امام کو لے کر کہ ان کی داڑھی چھوٹی ہے ٹخنوں سے نیچے پائجامہ ہے امام صاحب نے گرچہ حجت کی جنہیں یقین تھا کہ مولانا میرا پاس و لحاظ کریں گئے پر مولانا دھاڑ کر بولے امام صاحب داڑھی بڑھاو اور پائجامہ چھوٹا کرو نہیں تو مسجد چھوڑ دو مولانا کے جاننے والے کہتے ہیں کہ ابتدائی ایام میں اکثر بنا دودھ کے چائے پیتے تھے غربت و افلاس کی مار جھیل کر کنندن ہوئے تھے غریبوں سے مشفقانہ رویہ اختیار کرتے نرمی و محبت سے بات کرتے بڑے مہمان نواز تھے رمضان المبارک کی آمد پر بازار میں نکلتے تھے ہوٹل مالکان تھر تھر کانپتے کیا مجال تھی کہ مولانا کے زمانے میں بازار میں رمضان کے دنوں میں کوئی ہوٹل مالک اپنے ہوٹل کا دروازہ کھولتا پر ایک صاحب نے آخری عمر میں غصہ کا اظہار کیا اس پر تو مولانا انتہائی دل ملول ہوگئے پھر کبھی نہ گیے ہوٹل مالکان کے پاس پر پھر بھی بازار میں رہ رہے دکاندار مولانا کی انتہائی قدر کرتے انکی عزت و احترام کا خیال رکھتے مولانا حبیب اللہ شاہ نے اپنی تمام عمر نور الاسلام دارلعلوم المصطفوی بیت المکرم کی نظر کردی ان دو اداروں اور مسجد کی خدمت کرتے کرتے مولانا دنیا سے چل دئے۔
مولانا تمام عمر تحریک اسلامی کی ہیچھان بنے رہے پورے ضلع میں اسلام سے والہانہ محبت ہی تھی کہ مولانا نظام الدین اولیاء بھی گئے جہاں تبلیغی جماعت کے زعماء سے ملے واپس آکر پھر سے اپنے کام میں ہی مشغول ہوگئے ضلعی افق سے یہ آفتاب علم و دانش ۴ اپریل ۲۰۰۴ پر ہمیں داغ مفارقت دے گئے ان کی نماز جنازہ قائد تحریک آزادی سید علی شاہ گیلانی نے پڑھائی منظر بہت آبدیدہ تھا کچھ بزرگ سفید داڑھی رکھے لوگ آنسو بہاتے ہوئے بھی دیکھئے گئے جن کی ہچکیان بندھ گئی تھی مولانا حبیب اللہ شاہ مرحوم تحریک اسلامی کے صف اول کے سپاہی تھے اس لئے تحریک اسلامی کی زمہداری بنتی ہے کہ ان کے لئے کچھ تحریر کریں کہیں یہ یاد ماضی قصہ پارینہ نہ بن جائے شاید یہ آنے والی نسلوں کے لئے رہنمائی کا باعث بن جائے میں جب یہ لکھ رہا ہوں مولانا کے لئے تو یقین کریں آنکھیں بھیگ گئیں مجھے مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ جو کہ مولانا کے صبر کا میٹھا پھل تھے رہ رہ کر یاد آرہے ہیں ویسے ہی مولانا بارہمولہ میں تحریک اسلامی کی پہچھان تھے توحید و سنت کے ایسے داعی تھے جن کا نام لبوں پر آتے ہی توحید و سنت کا تصور دل و دماغ کو مسرت کا احساس دلاتا تھا میری طرح سے نہ جانے کتنے طالب علم اب بھی ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہوں گئے ہم کہنے میں حق بجانب ہیں میں نے ان سا دیکھا نہیں پر دعا کے سوا ہم کر کیا سکتے ہیں اسی لئے میری دعا ہے کہ رب الکریم اپنی رحمتوں کا سایہ فرمائے مولانا کی آخری آرام گاہ پر۔
تبصرے بند ہیں۔