مادام محبوبہ مفتی

دانش اقبال

ہائے اس زرد پشیماں کا پشیماں ہونا

جن پہ تکیہ تھا وہے پتے ہوا دینے لگے

یہ تاریخ جموں و کشمیر کا سیاسی المیہ ہے کہ یہاں رسوائے زمانہ بیعنامہ امرتسر سے تادمِ تحریر سیاسی کوکھ سے Abortion کرکے ایسی سیاسی قیادت کو مسندِ اقتدار پر بٹھایا گیا، جس نے وقتاً فوقتاً اولیں فرصت میں اپنے ضمیر کو مولیوں کے بھاو ¿لالچوک میں بڑے پندار کے ساتھ فروخت کیا۔ اس کے بعد جموں کشمیر کی عزت و آبرو کو نیلام کرنے کے نت نئے طریقے بروئے کار لائے گئے اور عوام کو یہ کہکر رام کرنے کی لاحاصل کاوشیں کی گئی اور ببانگ دُہل کہا گیا کہ ہمارا مقصدِ وحید اقتدار نہیں بلکہ جموں کشمیر کی سالمیت کا تحفظ اور یہاں کے لوگوں کو آبرو ندانہ اور باوقار زندگی گزارنے کی ضمانت دینا ہے۔

پھر المیہ پر المیہ یہ کہ ہر دور میں بکاو ¿ مال کی صفت سے متصفِ ناعاقبت اندیش لہیلائے اقتدار کو گلے لگانے کے لئے بیتاب نہیں رہے بلکہ اسکے تلوے چاٹنے کے لئے زبانِ مبارک کو ہونٹوں پر لٹکائے رہتے ہیں۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ دوسروں کی غلطیوں اور حماقتوں سے عام آدمی درسِ عبرت حاصل کرکے اپنی عاقبت کو خراب کرنے سے اجتناب کرتا ہے کہ چہ جائے کہ دانشور کہلانے والے افراد تجاہل عارفانہ سے کام لیکر مردہ چھپکلی کو بسم اللہ پڑھ کر نگل جائیں ۔ مرحوم شیخ عبداللہ سے لیکر مادام محبوبہ مفتی تک جسے جموں و کشمیر کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہے کو بھارت کی عظیم جمہوری حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے بعد Use and throughکے سائنٹیفک فارمولے کے مطابق وقتاً فوقتاً یوں ٹھکانے لگایا کہ جسطرح Dustbinمیں بچوں کے شکستہ کھلونوں کو ڈالا جاتا ہے۔ پھر خاکروب ان کو وہاں پہنچا کے دم لیتا ہے جہاں ان کا مقدر ہوتا ہے۔

واہ حسرتا! اس تذلیل سے کوئی بھی سیاسی قائد نہ شرمسار ہی ہوتا ہے اور نہ ندامت کا جذبہ ہی اس میں پیدا ہوتا ہے۔ مادام محبوبہ مفتی جسے کشمیر کی ذہین و قطین بیٹی ہونے کا شرف حاصل ہے نے بقول شخصے RSSکے لئے ریاست کے یسارویمن میں راستے ہی نہیں بلکہ گلپوش وادی میں زمین بھی تیار کررکھی ہے اور اس قبیل کے سیاسی قائدین اور ان کی چھتر چھایا میں پناہ لینے والوں کے لئے اخبار روزنامہ ”اُڑان“ شمارہ ۹ جولائی ۸۱۰۲ یہ سُرخی چشم کُشا ہے ملا حظہ ہو

” جموں خطہ مُسلم اکثریت میں تبدیل کرنے کی سازش ، گورنر ۴۱ فروری کو جاری احکامات واپس لیں۔ محبوبہ مفتی والی حکومت وہاں سلفی شدت پسند اور اسلام پسند تھی ،یہ من گھڑت الزام اُس مسلم خاتون وزیر اعلیٰ پر لگایا گیا جس نے پنڈت برادری کو خوش کرنے کے لئے مورتی پوجا کی اور مورتی کو دودھ پلایا تھا۔ مسٹر انکور شرما کے محولہ Remakrsپڑھ کر دہلی کی خیرات پر چلنے والوں کی آنکھیں نہ کھلیں اور ان کو احساس ندامت نہ ہوا پھر بھی اقتدار نیلم پری پر فریضتہ ہی رہے تو یہی کہا جاسکتا ہے

اُنگشت خامہ بدنداں ہے کہ کیا کہئے

ناطقہ سریگریباں ہے کہ کیا لکھئے

اس قبیل کے قائدین کو یہ بات ذہین شریف میں محفوظ رکھنا چاہئے کہ آنیوالی نسلیں ان کو کس نام سے یاد کریں گی جعفر از رکن ۔ یا حکیم الامت۔

گردش ِ دوراں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ مظلوموں، بیگناہوں اور دست تہہ سنگ شہریوں کا مقدس خون رنگ لا کے رہے گا۔ پھر قبول فیض احمد فیض

اے خاک نشینو! اُٹھ بیٹھو و ہ وقت قریب آپہنچا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے

اللہ کرے یہ محشر برپا نہ ہو یہاں آپسی بھائی چارہ ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، پیار و محبت کی بہاریں پھر لوٹ آئیں ، نفرتوں فرقہ پرستی کے زندھیروں میں احترام ِ آدمیت کے چراغ جگمگا اُٹھیں لیکن باایں ہمہ بقولِ دینا ناتھ نادم

ولہ زیر دیمو از طوفانس

بیکس نہ مجبور انسانس

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔