بیوعات میں ’غلطی‘ کی شرعی حیثیت

شادمحمدشاد

 شریعت کی نظر میں معاملات اور خریدوفروخت کے صحیح ہونے کے لیے ایک اہم اور بنیادی شرط یہ ہےکہ خریدوفروخت کرنے والے معاملہ پر راضی ہو۔یہی وجہ ہے کہ کسی پر کسی معاملہ کے لیے جبر وزبردستی کرنا یا کسی کو دھوکہ دیکر اس سے  کوئی چیز سستی خرید لینا یا اُسے مہنگی فروخت کردینا شرعا ممنوع ہے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ :”اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقےسے نہ کھاؤ،الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجود میں آئی ہو(تو وہ جائز ہے)اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو،یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔“(سورتِ نساء،آیت نمبر:29)

  ایسے کئی اسباب ہیں جن کی وجہ سے انسان کی رضامندی اور اختیارباقی نہیں رہتا،جیسے جبروزبردستی اور دھوکہ وغیرہ۔یہاں صرف ”خطا“اور غلطی کے بارے میں چند باتیں ذکر کرنا مقصود ہے،کیونکہ بسااوقات غلطی کی وجہ سے انسان کی رضامندی باقی نہیں رہتی اور کبھی اس کی وجہ سے شریعت کے بقیہ اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔

خطا اور غلطی  اس حد تک تو عذر ہے کہ اس کی وجہ سے انسان گناہ گار نہیں ہوتا اور وہ آخرت کی سزا سے بچ جاتا ہے،لیکن بعض اوقات انسان کی خطا اور غلطی کی وجہ سے دوسرے انسانوں کا حق ضائع ہوجاتا ہے،اس اعتبار سے خطا اور غلطی کوئی عذر نہیں ہے،بلکہ جس شخص نے غلطی یا خطا کا ارتکاب کیا ہے وہ ان حقوق کا ذمہ دار ہوگا جو اس کے فعل سے ضائع ہوئے ہیں۔(الأشباه والنظائر -ص: 335)

خریدوفروخت کے معاملہ میں ”غلطی“کی درج ذیل صورتیں ممکن ہیں:

1۔الفاظ میں خطا یا غلطی

غلطی یا خطا کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی شخص کی زبان پر غلطی سے بیچنے یا خریدنے کے الفاظ آجائے ،یا کوئی شخص زبان سے قصدا ایسےالفاظ بولے جن کے بارے میں اُسے یہ علم نہ ہو کہ ان الفاظ سے خرید وفروخت کا معاملہ منعقد ہوتا ہے۔مثلا کوئی دوسرے کو یہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ چیز میں نےایک ہزار روپے میں خریدی ہے،لیکن غلطی سے اس کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے کہ یہ چیز میں تمہیں ایک ہزار میں فروخت کرتا ہوں۔دوسرے آدمی نے اس پیشکش کو قبول کرلیا ۔ایسی صورت میں اگر پہلا شخص یہ دعوی کردے کہ میں چونکہ اس زبان سے واقف نہیں ہوں،اس لیے مجھ سے غلطی ہوگئی اور اس بات پر گواہ بھی پیش کردے تو اس کی بات معتبر ہوگی۔لیکن اگر وہ اہلِ زبان ہے تو پھر اس کی بات معتبر نہیں ہوگی،بلکہ مخالف شخص کی بات قبول کی جائیگی۔اگر اس نے غلطی اور خطا کی تصدیق کردی تو معاملہ منعقد ہی نہ ہوگا،ورنہ بیع کا معاملہ منعقد ہوکر لازم ہوجائےگا۔

2۔چیز کے وجود میں غلطی

جس چیز کو فروخت کیا جارہا ہے،اس کے وجود میں غلطی ہوجائے۔فروخت کنندہ یہ سمجھ کر چیز بیچ دےکہ یہ چیز میرے پاس ہے،لیکن بعد میں علم ہوجائے کہ چیز موجود ہی نہیں ہے۔جیسے زید نے اپنے گودام میں  رکھا ہوا مال بیچ دیا،لیکن جب اس نے گودام کھولا تو وہاں مال موجود نہیں تھا۔گم ہوگیا تھا یا جل گیا تھا یا خراب ہوگیا تھا۔ایسی صورت میں یہ معاملہ باطل ہے۔سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا،کیونکہ جو چیز موجود نہ ہو،اس کو بیچنا شریعت کی نظر میں ناجائز اور باطل ہے۔

3۔ملکیت میں غلط فہمی

 اس کے تحت دو صورتیں آتی ہیں:

  الف۔ایک صورت یہ ہے کہ خریدار یہ سمجھ کر کوئی چیز خریدے کہ یہ چیز فروخت کنندہ ہی کی ملکیت میں ہے،لیکن بعد میں پتہ چلے کہ یہ چیز تو پہلے سے ہی خریدار کی ملکیت میں ہے۔مثلا زید نے عمر سے ایک زمین خریدی،بعد میں پتہ چلا کہ یہی زمین زید کو اپنے والد سے وراثت میں ملی ہےاور اسی کی ملکیت ہے۔یہ عقد بھی شرعا باطل اور غیر منعقد ہے۔

   ب۔دوسری صورت یہ ہے کہ خریدار یہ سمجھ کر چیز خریدلے کہ یہ چیزبیچنے والے کی ہے،لیکن معاملہ کرنے کے بعد پتہ چلے کہ یہ چیز کسی اور اجنبی شخص کی ہے۔مثلا زید نے عمر سے زمین خریدی،لیکن بعد میں گواہوں کے ذریعے اس بات کا علم ہوگیا کہ یہ زمین فروخت کنندہ(عمر)کی نہیں تھی،بلکہ یہ زمین خالد کی ہے۔یہ معاملہ اصل مالک(جیسے مذکورہ مثال میں خالد ہےاس)کی اجازت پر موقوف رہےگا۔اگر اصل مالک نے عقد کی اجازت دیدی تو یہ معاملہ منعقد ہوجائےگا اور اصل مالک اس شخص سے قیمت وصول کرلے گا جس نے اس کی زمین بیچی تھی۔اگر اصل مالک نے عقدکی اجازت نہ دی اور خریدار سے زمین واپس لے لی تو خریدار کے لیے شرعا یہ جائز ہوگا کہ اس نے فروخت کنندہ کو جو رقم دی ہے وہ اس سے واپس وصول کرے۔

4۔ چیز کی معرفت میں غلطی

 اس سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو بیچا جارہا ہے اس کی جنس میں،یا اس کی مقدار میں یا اس کی کسی ایسی صفت میں غلط فہمی ہوجائے جس صفت پر عقد اور معاملے کا دارومدار ہے۔مثلا زید نے عمر سے سونے کی انگوٹھی خریدی،لیکن بعد میں علم ہوا کہ یہ انگوٹھی چاندی ہے،صرف سونے کا پانی چھڑکا ہوا ہے۔یا زید نے عمر سے جاپان کی گھڑی خریدی،لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ گھڑی چائنہ کی ہے۔

اس صورت کے حکم میں یہ تفصیل ہے کہ اگر ایسی غلطی دونوں فریقین یعنی خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کی طرف سے ہوجائے اور دونوں اس پر متفق ہوں(یعنی Mutual Mistakeہو) اور بیچی جانے والی چیز کی جنس تبدیل ہو،جیسے سونے کے بجائے چاندی کی انگوٹھی نکل آئی ہوتو یہ عقد باطل ہے،سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا،اور اگر یہ فرق چیز کی مقدار یا صفت میں پایا جائے تو خریدار کو معاملہ ختم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

اگر یہ غلط فہمی کسی ایک فریق سے سرزد ہوجائے،(یعنی Unilateral Mistakeہو)مثلا صرف خریدار سے یا صرف فروخت کنندہ سے،اور دوسرے فریق نے اُسے زبانی یا تحریری یا فعل طور پر کوئی دھوکہ نہیں دیا ،بلکہ اس نے اپنے ہی گمان میں غلطی کی وجہ سے چاندی کو سونا سمجھ لیا یا چائنہ کی چیز کو جاپانی سمجھ لیا توعام حالات میں ایسا معاملہ درست اور منعقد ہوگا،البتہ قاضی یا ثالث کو چاہیے کہ ایسی صورت میں غورفکر سے کام لیکر نقصان کا اندازہ لگائے اور یہ متعین کرے کہ اس غلطی کا سبب اور ذمہ دار کون ہے،اس کے بعد اس کے خلاف فیصلہ صادر کرے۔(فقہ البیوع 1/210 تا 221)

تبصرے بند ہیں۔