خاندانی نظام اور اس کے مسائل
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک اکائی ہونے کے باوجود خاندان سے رشتوں کے اعتبار سے جڑا ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے خوشی وغمی میں مربوط رہتا ہے، اس ارتباط سے ایک کو دوسرے سے قوت ملتی ہے اس لیے اس کو اسرۃ کہتے ہیں، کیوں کہ اس لفظ میں قوت وطاقت کا مفہوم پوشیدہ ہے۔
میرے علم ومطالعہ کی حد تک قرآن کریم اور فقہاء کرام کے یہاں یہ لفظ مستعمل نہیں ہے اس کی جگہ آل، اہل وعیال، ذریۃ، ابن، بنت وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، موجودہ دور میں اسرۃ کا اطلاق مرد، اس کی بیوی اور اس کے ان اصول وفروع پر ہوتا ہے، جس کا نفقہ اس کے ذمہ ہو، البتہ ابو جعفر نحاس صرف مرد کے پدری رشتہ دار کو ’’اسرۃ‘‘ مانتے ہیں، جو بدیہی طور پر صحیح نہیں ہے۔ قرآن کریم میں جہاں اللہ ورسول سے سب سے زیادہ محبت کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں باپ، بیٹا، بھائی، بیوی اور قبائل کا ایک ساتھ ذکر موجود ہے، جن کی محبت زیادہ ا نسان کے دلوں میں جا گزیں ہوتی ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو خاندان میں یہ سب آجاتے ہیں، البتہ ان میں سے بعض کا نفقہ واجب ہوتا ہے اور بعض کا نہیں، بعض کی کفالت ضرورتا کی جاتی ہے اور بعض اس دائرے سے بھی باہر رہ جاتے ہیں، لیکن خاندان کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے، ہمارے یہاں کا یہ عرف عام ہے اور فقہ میں عرف عام کا بھی اعتبار ہوتا ہے، بخلاف مغرب کے کہ ان کے یہاں فیملی کا مطلب میاں بیوی اور بیٹے، بٹیاں ہوا کرتے ہیں، ان کے خاندان میں والدین کی جگہ نہیں ہوتی ہے یا تو وہ اکیلے رہتے ہیں یا انہیں اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیا جاتا ہے، اسلام میں سماجی زندگی میں جو خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ ہے اس کا والدین کے بغیر کوئی تصور نہیںہے ۔ یہ خاندانی نظام سماج میں دو طرح رائج ہے، ایک مشترکہ خاندانی نظام اور دوسرا انفرادی خاندانی نظام۔
مشترکہ خاندانی نظام میں ایک میاں بیوی کے تمام لڑکے، بلکہ بسا اوقات بھائی اور بچے ان کے بھی ساتھ ہوتے ہیں، اس نظام میں اگر آپس میں الفت ومحبت رہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشیں حائل نہ ہوں تو مشترک ہونے کی وجہ سے یہ بڑا طاقتور ہوتا ہے، لوگ اس کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے، اس لیے کہ ان کی لاٹھی مضبوط ہوتی ہے اورمالی اعتبار سے بھی وہ عموما فائق ہوتے ہیں، اور وہ اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ دیہاتی زبان میں ان سے ’’پھریا نا‘‘آسان نہیں ہوتا اس لیے لوگ ان سے خوف کھاتے ہیں اور ان کی قوت کی وجہ سے ان پر کوئی ظلم نہیں کر سکتا۔
اس نظام کی چند خرابیاں بھی ہیں، اس میں خاندان کے بہت سارے ارکان دوسرے کی کمائی پر بھرسہ کرنے لگتے ہیں، ایک کماتا ہے اور سب بیٹھ کر کھاتے ہیں، اس کی وجہ سے خاندان کے بہت سارے افراد کاہل ہوجاتے ہیں اور وہ معاش کے حصول میں تگ ودو کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
دوسری خرابی اس مشترکہ خاندانی نظام میں یہ ہے کہ شریعت کے پردہ کے اصول پر عمل یہاں دشوار ہوتا ہے، ایک آنگن اور ایک چہار دیواری میں رہنے کی وجہ سے پردہ کا نظام باقی نہیں رہتا اور کبھی کبھی اس بے پردگی اور غیر محرموں سے اختلاط کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں، خصوصا آج کے دور میں جہاں رشتوں کا احترام باقی نہیں ہے اور رشتوں کی پاکیزگی کو تار تار کرنے کے واقعات کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں، بظاہر مشترکہ خاندانی نظام میں اختلاط سے بچنا ممکن نہیں ہے۔
تیسرا نقصان یہ ہے کہ مشترکہ خاندان میں فیصلہ لینے کی قوت کم ہوجاتی ہے اور نفسیاتی طور پر وہ کمزور ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ مشترکہ خاندان میں فیصلے گھر کے گارجین لیتے ہیں اور اسی فیصلے پر سب کو چلنا پڑتا ہے، گارجین کے یہ فیصلے کبھی تو مشورے سے ہوتے اور کبھی بغیر مشورہ کے ہی خاندان کے مفاد میں فیصلہ لے لیا جاتا ہے، اس سے خاندان میں اجتماعی مزاج پیدا ہوتا ہے اور سمع وطاعت کی ڈور میں سارے افراد خانہ بندھے ہوتے ہیں یہ مشترکہ خاندانی نظام کا ایک مثبت پہلو ہے۔
اس کے مقابلے جو انفرادی خاندان ہوتا ہے، اس میں آپس میں ربط وہم آہنگی کی کمی ہوتی ہے، ایک دوسرے سے حسد اور جلن کا مزاج پیدا ہوتا ہے ہر افراد خود کو آگے بڑھانے کے جذبہ سے سرشار ہوتا ہے، یہ جذبہ اس قدر بڑھا ہوتا ہے کہ حلال وحرام کی تمیز بھی مٹ جاتی ہے اور ترکہ وغیرہ کی تقسیم میں بھی لوگ آنا کانی کرنے لگتے ہیں، اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں خود کمانے کھانے آگے بڑھنے اور اپنے مفادات میں فیصلہ لینے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، انہیں سر براہ اور گارجین بننے کے لیے اپنے سے بڑے کی موت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا اور وہ بڑوں کی موجودگی میں ہی اپنے بیوی، بچوں کے گارجین ہونے کی حیثیت سے بڑے ہوجاتے ہیں، انفرادی خاندانی ڈھانچے میں جھگڑے لڑائی کا مزاج بھی کم ہوتا ہے، اس لیے کہ ان کے ساتھ رہنے والے ان کے دست نگر ہوتے ہیں اور جھگڑے کے لیے دوسراکوئی موجود نہیں ہوتا۔
مشترکہ خاندانی نظام میں ساس، بہو، نند، دیور وغیرہ کے جھگڑے عام ہوتے ہیں، امراء کے یہاں چوں کہ کسی چیز کی محرومی نہیں ہوتی، ان کے یہاں وافر مقدار میں دولت ہوتی ہے، جس سے گھر کا ہر فرد اپنے ذوق کی چیزیں خرید لیتا ہے اور بات آگے نہیں بڑھتی؛ لیکن اوسط آمدنی والے یا غریب خاندان میں قوت لا یموت کے ساتھ زندگی گذرتی ہے، ایسے میں من پسند آرائشی چیزوں کے لیے گنجائش یا تو ہوتی نہیں ہے او رہوتی ہے تو کم ہوتی ہے، چنانچہ چِک چِک شروع ہوتی ہے اور پورا خاندان اس کی زد میں آجاتا ہے۔
خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ میں بیوی کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے، مرد کی قوامیت اپنی جگہ، لیکن گھر پُر سکون رہ ہی نہیں سکتا اگر گھر کی خاتون بد سلیقہ، زبان دراز اور پھوہڑ ہو، یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک جہاں خاندان میں مرد کو اہمیت دی جاتی ہے، مسلمان اور اسلامی ممالک جہاں’’الرجال قوامون علی النسائ‘‘ کی جڑیں بہت گہری ہیں وہاں بھی مردوں پر تشدد اور استحصال روز مرہ کی بات ہے، مغربی ممالک میں جو کچھ مردوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا تو ذکر ہی فضول ہے، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم میں کائنڈ (Menkind)ہے جس کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے متاثرین میں ہر تین میں ایک مرد ہوتا ہے، اس تنظیم کا یہ بھی ماننا ہے کہ مردوں کا خواتین کے ذریعہ جذباتی، جسمانی، دماغی اور معاشی استحصال ہوتا ہے، یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے، کیوں کہ مردوں میں تشدد بر داشت کرنے کا خاموش مزاج ہوتا ہے، وہ اسے دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیان کرنے میں شرم، جھجھک، خوف اور قباحت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان واقعات کے بیان کرنے سے دوستوں میں ان کا وزن کم ہوتاہے اور مذاق کا موضوع بن جاتے ہیں۔
مرد کی قوامیت کی ایک وجہ اللہ رب العزت نے عوتوں پر ان کے ذریعہ انفاق مال کو قرار دیا گیا، اب ایسی بیویاں جو متمول گھرانوں کی ہوتی ہیں یا ملازمت پیشہ ہوتی ہیں، ان کے شوہر ان کی کمائی پر گذارا کرتے ہیں، عورتوں کا نفقہ بوجہ نکاح مرد پر ہے، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہوتا ہے، مرد عورت کے نفقہ پر پلنے لگتا ہے، ایسے میں اس کی حیثیت زر خرید غلام کی ہوجاتی ہے، اگر اس نے شادی میں تلک جہیز لیا ہوتا ہے، اس میں مزید پختگی آجاتی ہے، ایسے شوہر کی مصیبت صرف بیوی تک محدود نہیں رہتی، بیوی کے سارے خاندان والے موقع بموقع لعن طعن کرتے رہتے ہیں، اور عورت اپنے میکہ والے کے کہنے پر شوہر کے لیے نئی نئی مصیبیں کھڑی کرتی رہتی ہے ۔
مردوں پر گھریلوتشدد کرنے والی عورتوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے، جسے لو’’ میریج‘‘ کے نام پر بیوی بنایا جاتا ہے، محبت، پیار، عشق کبھی اچھی چیز رہی ہوگی، ان دنوں لڑکیوں اور عورتوں کے حوالہ سے یہ ہوسناکی کا دوسرا نام ہے، در اصل یہ جسم کی بھوک ہے، شادی کے بعد جسم کی یہ بھوک مٹ جاتی ہے تو مرد کے ہر کام میں خامی نظر آنے لگتی ہے، پھر حالت یہ ہوجاتی ہے کہ پہلے سال شوہر بولتا رہتا ہے، بیوی سنتی رہتی ہے، دوسرے سال بیوی بولتی ہے، شوہر سنتا ہے اور تیسرے سال دونوں بولتے ہیں اور پورا محلہ سنتا ہے،ا س قسم کی عورتیں اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ کر لیتی ہیں اور شوہر اس قدر مظلوم ہوجاتا ہے اس کے لیے گھر میں رہنا محال ہوجاتا ہے، میں ایک ایسے خاندان سے واقف ہوں، جس کے شوہر نے ایک مکان میں رہتے ہوئے ڈھائی برسوں سے اپنی منکوحہ کا چہرہ نہیں دیکھا، سارے بچے بھی ماں کے ساتھ ہیں، ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور شوہر گھر کے بر آمدے کے ایک حصے میں کس مپرسی کی زندگی گذاررہا ہے۔
خاندان کے ٹوٹنے، بکھرنے کے جو اسباب وعلل ہیں، ان میں لڑکیوں کی اسلامی تعلیم وتربیت سے دوری بھی ہے، وہ اپنے شوہر کو وہ مقام دینے کو تیار نہیں ہیں جو شوہر کو اسے دینی چاہیے، لڑکیوں کے مدارس میں بھی جو کچھ ا نہیں پڑھایا جا رہا ہے اس سے وہ ان بیلنس ہو رہی ہیں، ان میں اپنے حقوق کے تئیں حساسیت زیادہ آجاتی ہے اور فرائض کا خیال باقی نہیں رہتا، اس لیے عالمہ، فاضلہ لڑکیوں میں بھی طلاق کا تناسب کم نہیں ہے ۔ خاندانی نظام میں مرد کی قوامیت تسلیم کرنے کے باوجود ان دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے، ’’ھن لباس لکم وانتم لباس لھن‘‘ ان دونوں کے درمیان الفت ومحبت رہے گی تو خانگی زندگی پُر سکون گذرے گی، ورنہ گھر جہنم کا نمونہ ہوجائے گا۔ اللہ رب العزت نے گھر کو ٹینشن فری زون بنایا ہے، جس کی طرف ’’وجعلنا بینکم مودۃ ورحمۃ ‘‘ کہہ کر اشارہ کیا ہے، ہمیں اس اشارہ کی معنویت کو سمجھنا چاہیے۔
تبصرے بند ہیں۔