خواتین کو ناقص العقل کہنا شریعت کے خلاف ہے
ڈاکٹر سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
حدیث شریف میں خواتین کو ناقصات عقل و دین کہا گیا ہے۔ یہ حدیث شریف مختلف اسناد سے صحاح ستہ کی معتبر کتابوں یعنی بخاری، مسلم، ترمذی، سنن ابی دائود، سنن ابن ماجہ اور دیگر مستند کتب حدیث میں مذکور ہے جس میں عورتوں کو خلقت و فطرت کی بنیاد پر ناقصات عقل و دین کہا گیا ہے اور اس کی علتیں بھی بیان کردی گئی ہیں۔ لہٰذا اس حدیث سے خواتین میں استخفاف و فروتری کا پہلو نکالنا درست نہیں ہے۔لیکن اکثر مرد حضرات متکبرانا انداز میں اسی حدیث پاک کا حوالہ دیتے ہوئے خواتین کو ناقص العقل کا طعنہ دیتے ہیں اور انہیں نیچا دیکھانے اور اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جو حدیث شریف کے مختلف معنی و مستدلاتکا علم نہیں ہوتا۔ جب ایک آیت پاک کی مختلف تفاسیر و تاویلات اور حدیث شریف کی مختلف تشریحات و توضیحات کا امکان موجود ہے تو مسلمانوں کے لیے زیادہ انسب یہ بات ہے کہ آیت شریفہ اور حدیث مبارکہ سے ایسا معنی و مفہوم اخذ کریں جس میں اسلامی تعلیمات کے محاسن و خوبیوں کا بدرجہ اتم اظہار ہوتا ہو۔محولہ حدیث کی توجیہ اکثر ہم ویسے نہیں کرتے جو شارعؐ و شریعت مطہرہ کا منشاء و مقصد ہے بلکہ ہم اس حدیث پاک کے وہ معنی مراد لیتے ہیں جو ہماری بڑھائی اور خواتین کی حقارت کو ظاہر کرتا ہے جو روحِ تعلیماتِ اسلامی کے بالکل مغائر ہے۔ مذکورہ بالا حدیث پاک سے اگر نبی محتشمؐ کا منشا خواتین کی حقارت، تذلیل و توہین ہوتا تو مرد کو کامل العقل والدین ہونے کی سند بھی عنایت فرماتے۔ مرقع ہر خوبی و زیبائی ؐ کے کسی ارشاد سے خواتین کی توہین کا پہلو نکلنا ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے آپ کا معمول تو یہ تھا کہ جب بھی آپ ازواج مطہرات کے پاس تشریف لاتے تو انتہائی نرمی اور خاطرداری کرتے، اپنی لخت جگر سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے تو پیشانی پر بوسہ دیتے اور خاتون جنت جب آپ سے ملنے کے لیے آتیں تو آپؐ شہزادیٔ کونین کے اعزاز میں اپنی کملی بچھادیتے اور اس پر بٹھاتے۔
محولہ بالا حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارے گھر کی خواتین کبھی مغلوب الجذبات ہوکر زود رنجی کا مظاہرہ کریں تو قوام ہونے کی حیثیت سے ان کے ساتھ کوئی غلط روش اختیار نہ کرو بلکہ تم ان کے ساتھ درگزر کا معاملہ کروجس طرح اللہ تعالی نے خواتین کی آسانی کے لیے ایام مخصوصہ میں عبادت کے باب میں انہیں رخصت عطا فرمائی ہے۔اسلام نے مرد حضرات کو قوام ضرور قرار دیا ہے لیکن اسلام نے یہ کبھی پسند نہیں کیا کہ شوہر کا انداز تحکمانہ ہو بلکہ اسلام چاہتا ہے کہ اس کا طرز عمل اشتراکیت پر مبنی ہو۔ آج ہم گھریلو امور یا بیوی کے کاموں میں مدد کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں جبکہ خاتم پیغمبراں ؐ گھرکی صفائی خود کیا کرتے تھے، مویشی کو چارہ دیتے تھے، بکری کا دودھ بھی خود ہی نکال لیا کرتے تھے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں اکثر مرد حضرات تحکمانہ انداز کو اختیار اور اشراکیت کو بالکلیہ فراموش کیے ہوئے ہوتے ہیں اسی لیے خواتین کو ناقصات عقل و دین کا طعنہ دیتے ہیں۔ ناقص العقل کے معنی ہرگز یہ نہیں ہے کہ عورت کے پاس عقل آدھی ہوتی ہے یا کم ہوتی ہے جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت خواتین کو طعنہ دیتے ہوئے کہتی ہے۔ یہ غلطی اس لیے ہورہی ہے چونکہ ہم نقص سے اُردو والا نقص مراد لیتے ہیں جس کا مطلب عیب دار ہونا ہے۔ یہ معنی اس لیے درست نہیں ہوسکتے چونکہ یہ نقص ان کی اصلی خلقت و فطری عوارض کی وجہ سے ہے جس میں خواتین کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اسی لیے ایسے نقص پر اللہ تعالی کی طرف سے خواتین کا کوئی مواخذہ و پکڑ نہیں ہوتی بلکہ یہ نقص شریعت کی طرف سے ان کے حق میں رعایت و رخصت ہے۔
محولہ بالا حدیث پاک میں عربی والا نقص مراد ہے جس کا مطلب مقدار میں کم ہونا ہے۔ اگر بالفرض محال اگر ہم نقص کے معنی عیب کے بھی لیں تو خواتین کو ناقصات عقل و دین کا طعنہ دینا اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب خواتین تمام دنیوی معاملات اور دینی امور میں ناقص ہوں جبکہ بفحوائے حدیث پاک وہ چند خاص امور جن کی وجہ سے انہیں ناقصات عقل و دین کہا گیا ہے جس کی وضاحت خود شارعؐ نے حدیث پاک میں بیان فرمادی ہے یعنی گواہی اور ایام میں مخصوص میں نماز و روزہ کی ادائیگی میں رعایت و رخصت ہے۔ دین اسلام نے گواہی دینے کے معاملات میں صنف نازک کو کم ذمہ داری سونپی ہے یا انہیں ان معاملات میں رعایت دی ہے اسی لیے انہیں ناقص العقل کہا گیا ہے۔
چونکہ مرد خواتین کے مقابلے میں جسمانی طور پر مضبوط، قوتِ فکر کو جذبات و احساسات پر غالب کرنے والا ہوتا ہے اسی لیے مرد حضرات کو گھریلو نظام کی سرپرستی، اسباب زندگی کی فراہمی اور جملہ معاشی معاملات کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اب جن معاملات کی ذمہ داری خواتین کے کندھوں پر ڈالی ہی نہیں گئی تو پھر ان معاملات میں گواہی کی ذمہ داری ان کے سپرد کیسے کی جاسکتی ہے ؟۔ لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام نے خواتین کو تجارتی و معاشی معاملات میں حصہ لینے سے مکمل منع بھی نہیں فرمایا۔ اگر کوئی خاتون شرعی حدود میں رہتے ہوئے تجارت و معاشی معاملات میں حصہ لینا چاہتی ہے یا افراد خانہ کی مالی ضروریات کی تکمیل کے لیے ملازمت اختیار کرنا چاہتی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ چونکہ مرد حضرات خواتین کے مقابل تجارتی و معاشی فرائض و ذمہ داریاں زیادہ نبھاتے ہیں ، تجارتی معاملات کی پیچیدگیوں ، کاروباری نزاکتوں ، لین دین و مالیاتی نظام کی باریکیوں سے عام طور پر پوری طرح واقف ہوتے ہیں ، اور انہیں عملی طور پر اس کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں وہ مالی و معاشی معاملات کے حقائق کو سمجھنے اور ان کے دور رس نتائج کا ادراک کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ رکھتے ہیں اسی لیے تجارتی دستاویزات پر گواہی کی ذمہد اری بھی ان پر زیادہ ڈالی گئی ہے اور ایسے معاملات میں خواتین پر شہادت ادا کرنے کا بوجھ کم سے کم رکھا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے چونکہ اکثر مالی معاملات میں مدعیٰ علیہ کے خلاف جب گواہی دی جاتی ہے تو فطری طور پر وہ گواہ کا دشمن بن جاتا ہے اور اسے ڈرانے دھمکانے اور مختلف ہتھکنڈوں سے اسے متاثر و مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے چونکہ مرد کے مقابل خواتین فطرتاً کمزور ہوتی ہے اور ان میں ہمت، جرأت، دلیری، حوصلہ اور شجاعت کم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی عورتوں کو سپہ سالار، جنرل اور کمانڈر کے عہدے پر مامور نہیں کیا جاتا۔
مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر دین اسلام نے خواتین کو گواہی کے معاملے میں رعایت دی ہے اور عورتوں کی شہادت کو مرد کی شہادت کا نصف قرار دیا ہے جو انسان کی فطری تقاضوں سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ اگر ایک خاتون فریق مخالف کے خوف، ہتھکنڈوں اور دبائو سے مرعوب و متاثر ہوکر بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ میں کچھ کا کچھ کہہ دے تب اسے دوسری عورت صحیح بات یاد دلادیتی ہے اسی لیے دو مرد گواہ میسر نہ ہونے کی صورت میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان حقائق کو جاننے کے باوجود ایک مرد کے مقابل دو خواتین کی گواہی کو بنیاد بناکر خواتین کو ناقص العقل کہنا یا انہیں حقیر و کم درجہ کی مخلوق سمجھنا اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف ہے۔ اسلام کے نزدیک اگر عورت واقعتاً ساقط الاعتبار ہوتی تو عورتوں کے مخصوص معاملات جیسے حیض، حمل، رضاعت، نو مولود کے رونے اور ہر وہ امر جس پر مرد حضرات مطلع نہیں ہوتے ان میں ایک عورت کی گواہی پر فیصلہ کا مدار نہ رکھا جاتا۔
دین اسلام میں دنیوی معاملات میں مرد حضرات اور نسوانی معاملات میں خواتین کی گواہی کا جو اعتبار ہے وہ عین حکمت و فطرت کے مطابق ہے۔ یقیناً مالی معاملات میں دو مرد کی گواہی کو معتبر سمجھا گیا ہے لیکن زنا کے معاملہ میں چار مرد حضرات کو گواہ بنانے کا حکم ہے چونکہ زنا کی سزا بہت سخت ہوتی ہے اسی لیے انصاف کے تقاضوں کو حتمی طور پر پورا کرنے کے لیے زنا کی شہادت کو دو مرد کی بجائے چار مرد حضرات پر موقوف کیا گیا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مرد کی گواہی بھی آدھی ہوجاتی ہے لیکن اس بنا پر ہم مرد حضرات کو ناقص العقل نہیں کہتے تو پھر خواتین کی شہادت کو مرد کی شہادت کا نصف قرار دینے پر انہیں ناقص العقل ہونے کا طعنہ کیسے دیا جاسکتا ہے؟ مالی معاملات میں پیش آنے والے ممکنہ نزاع سے بچانے کے لیے قرآن مجید نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ مالی معاملات کی ساری شرائط ضبط تحریر میں لائیں۔
اب ذرا قرآن مجید کے اسلوب پر غور فرمایئے کہ جب انسان مالی معاملہ ضبط تحریر میں لاتا ہے تو اسے حکم دیا کہ دو مرد حضرات کو گواہ بنائیں چونکہ وہ معاشی معاملات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور دو مرد حضرات نہ ملنے کی صورت میں ایک مرد اور دو خواتین کو بھی گواہ بنایا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر شمار کی گئی ہے۔ چونکہ خواتین کو معاشی معاملات میں وہ درک و ملکہ حاصل نہیں ہوتا جو مرد حضرات کے پاس ہوتا ہے اسی لیے جس معاملہ میں دو مرد میسر نہ آنے کی صورت میں ایک مرد اور دو خواتین کو گواہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے گویا یہ اختیاری شہادت کا معاملہ ہے ورنہ کسی ہنگامی و ناگہانی واقعہ میں ایک مسلم خاتون کی گواہی الگ رہی کفار کی گواہی بھی قابل قبول ہے۔ اگر ہم ناقص العقل کا معنی آدھی عقل یا کم عقل لیں تو اسی حدیث پاک میں ناقص الدین کا بھی ذکر ہوا ہے۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں خواتین آدھا دین والی یا کم دین والی ہوتی ہیں جبکہ قرآن مجید بلاتفریق جنس تمام مسلمانوں کو مکمل طور پر دین اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ نبی آخر الزماں ؐ نے نکاح کو نصف ایمان قرار دیا ہے جس خاتون سے نکاح کرنے کے بعد مرد آدمی کا نصف ایمان مکمل ہوجاتا ہے وہ ناقص الدین کیسے ہوسکتی ہے؟
ان دلائل و براہین سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ناقص الدین کا معنی آدھا دین یا کم دین لینا روحِ تعلیماتِ اسلامی کے بالکل مغائر ہے۔ ناقص الدین کے وہی معنی مراد لیے جاسکتے ہیں جو نبی پاک ؐ کا منشاء ہے۔ ناقص الدین کے معنی دینی معاملات میں کمی کرنا یا رعایت دینا ہے چونکہ خواتین کو ایام مخصوصہ (جس کی کم از کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے) کی وجہ سے رمضان المبارک کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا دیگر ایام میں کرنے کی رعایت دیکر اور نمازوں کو ساقط کرکے انہیں سہولت دی گئی ہے اسی لیے انہیں ناقص الدین کہا جاتا ہے۔ خواتین کو یہ رعایت اس لیے دی گئی ہے کہ کیونکہ ایام مخصوصہ میں وہ انتہائی تکلیف اور اذیت سے گزرتی ہے۔ ایک طرف اللہ تعالی خواتین کو ایام مخصوصہ کی اذیت و تکلیف کو کم کرنے کے لیے انہیں روزوں کی قضا کرنے اور نمازوں کو ترک کرنے کی رعایت دے رہا ہے تو دوسری طرف ہم ہیں جو خواتین کو ناقصات عقل و دین کا طعنہ دے کر انہیں ذہنی تکلیف و اذیت پہنچا رہے ہیں کیا یہ روش عباد الرحمن کی ہوسکتی ہے؟
اب جو معنی ناقص الدین میں مراد لیے گیے ہیں وہی معنی ناقص العقل میں بھی مراد ہوں گے۔ شریعت مطہرہ اگر عقل اور دین کے معاملات میں خواتین کو کچھ رعایت دے رہی ہے تو یہ ان کے حق میں عیب کیسے ہوسکتا ہے ؟ ناقصات عقل و دین درحقیقت خواتین کے حق میں رحمت و انعام ہے اور جو چیز احسان و انعام ہوتی ہے اس کا طعنہ دینا انتہائی نامعقولیت پر مبنی ہے۔ ہمیں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ حدیث پاک میں لفظ نقص کا استعمال صرف ظاہری اعتبار سے کیا گیا ہے حقیقی اعتبار سے نہیں۔ علاوہ ازیں ناقصات عقل و دین کا حکم عمومی نہیں ہے بلکہ مخصوص صورت حال سے متعلق ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ بعض خواتین قوتِ حافظہ، ذہانت اور عبادت کی ادائیگی میں مرد حضرات سے زیادہ کامل ہوتی ہیں۔ بہت ساری خواتین اپنی عقل ، اپنے دین کے اعتبار سے بہت سے مرد حضرات سے فائق ہوتی ہیں۔ ام المومنین بی بی عائشہ صدیقہ ؓ کا شمار اکابر فقہاء صحابہ میں ہوتا ہے، فقاہت اور اجتھاد میں بے شمار مرد صحابہ کرام پر فائق تھیں ، اکثر صحابہ کرام فقہی مسائل کی تفہیم و توضیح کے لیے آپ سے رجوع کرتے تھے۔
محولہ بالا حدیث میں اس بات کی بھی واضح تصریح ملتی ہے کہ ناقصات عقل و دین ہونے کے باوجود خواتین دانا و زیرک، عقلمند و سمجھدار مرد کی عقل پر غالب آنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اگر واقعی خواتین کی عقل میں عیب ہوتا تو شاید ایسا کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہوتا۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔
تبصرے بند ہیں۔