دار پر حد سے سِوا یار آئی
نادیہ عنبر لودھی
دار پر حد سے سِوا یار آئی
اس بشر کو تو وفا یاد آئی
…
گُل کی خوشبو تھی جہاں پر ناپید
اُس گلی باد ِ صبا یاد آئی
…
بجھ گئی شب کو اگر خواہش ِدل
چارہ گر تجھ کو دوا یاد آئی
…
چلتے چلتے جو جلاتے گئے دیپ
ظلمتِ شب کی ادا یاد آئی
…
جیتے جیتے رہے عنبر مدہوش
مرنے والے کو قضا یاد آئی
تبصرے بند ہیں۔