دار پر حد سے سِوا یار آئی 

نادیہ عنبر لودھی

دار پر حد سے سِوا یار آئی

اس بشر کو تو وفا یاد آئی

گُل کی خوشبو تھی جہاں پر ناپید

اُس گلی باد ِ صبا یاد آئی

بجھ گئی شب  کو اگر خواہش ِدل

  چارہ گر تجھ کو دوا یاد آئی

چلتے چلتے جو جلاتے گئے دیپ

ظلمتِ شب کی ادا یاد آئی

جیتے جیتے رہے عنبر مدہوش

مرنے والے  کو قضا یاد آئی

تبصرے بند ہیں۔