دار القضاء اور مسلم معاشرہ کا اعتدال

عبد الجبار طیب ندوی

دار القضاء کی تعریف

’’دار القضاء‘‘ یہ دو لفظوں پر مشتمل ہے، ایک ’’دار‘‘جس کے معنی گھر و محل کے ہیں، دوسرا لفظ قضا، جس کے معنی فیصلہ کے ہیں، (دیکھئے: لسان العرب لابن منظور ۲/۱۴۵۲)، یہ قضاء : قضی یقضی(ض)سے ماخوذ ہے حکم اور فیصلہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے؛ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ’’وقضی ربک ان لا تعبدوا الا ایاہ‘‘، مختار الصحاح میں ہے کہ قضاء کامعنی حکم ہے اور اس کی جمع اقضیۃ ہے، (مختار الصحاح، ۱/۳۵۵، المکتبۃ العصریۃ، بیروت)، علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں، ’’القضاء ہوالحکم بین الناس بالحق‘‘ کہ قضاء لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کو کہتے ہیں : دیکھئے بدائع الصنائع للکاسانی، (۸/۳، ط، دار الکتب العلمیۃ)۔ صاحب محیط کہتے ہیں کہ قضاء فصل خصومات وقطع منازعات کانام ہے۔ (البحر الرائق : ۶/۲۷۷)۔

اس تفصیل کے بعد قضاء کی تعریف یہ ہوئی کہ ’’اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق حق کے ساتھ لوگوں کے نزاعات میں فیصلہ دینا ’’قضاء‘‘ ہے۔

نظام قضاء کی شرعی حیثیت

اگر ہم نظام قضاء کی شرعی حیثیت کے بارے میں بات کریں توقرآن وحدیث اور اجماع امت سے اس کی فرضیت ثابت ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کو خلافت ارضی عطاء فرماتے ہوئے لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم دیا{یاداؤد اناجعلناک خلیفۃ فی الأرض فاحکم بین الناس بالحق}، (سورۃ ص)، دوسری جگہ قرآن کہتا ہے جس میں اللہ رب العزت نے آپﷺ کو بھی لوگوں کے درمیان حق وباطل کا فیصلہ کرنے اور خصومات ونزاعات کو ختم کرانے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ جو بھی فیصلے ہوں وہ سارے کہ سارے اللہ کے اتارے ہوئے احکام وہدایت کی روشنی میں ہو، آپﷺ اللہ کی طرف سے اس منصب پر فائز کئے گئے تھے، اور مسلمانوں کو حکم دیاگیا تھا کہ وہ اپنے جملہ تنازعات واختلافات میں اللہ کے نبی ﷺ کوہی حاکم وقاضی مانیں اور ان کے فیصلہ کو بہ رضاورغبت قبول کریں، جو بھی فیصلے ہوں ان فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کردیں ورنہ ایمان باقی نہیں رہے گا؛ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:{ فلاوربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجربینہم ثم لایجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیما}(سورۃ النساء)۔

لہذاقضاء کاباضابطہ انتظام وانصرام اور لوگوں کے مسائل حل کرنا، صاحب حق کو اس کا حق شرعی دلانا اور ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا اور مظلوم کی داد رسی کرنا امت مسلمہ پر فرض ہے، تاہم یہ فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے اتنے افراد اس کام کو انجام دیں کہ قضاء کے مقتضیات پورے ہوسکیں اور اس کے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوجائیں، اگر امت کے افراد ان مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرلیتے ہیں تو پھر یہ فرضیت باقی تمام افراد کے سر سے ساقط ہوجائے گی، اللہ رب العزت کے یہاں باز پرس نہیں ہوگی، اور اگر قضاء کے مطلوبہ مقاصد پورے نہیں ہورہے ہیں تو امت کا ہر فرد مسؤل وذمہ دار ہے اس سے کل باز پرس ہوسکتی ہے زجروتوبیخ اور اللہ کی پکڑ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

عہد نبوی میں کار قضاء

نظام قضاء کے سلسلہ میں یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے کہ آپﷺ نے اپنی زندگی میں باضابطہ قضاء کا نظام قائم کیا تھا، خود بھی فیصلہ اور نزاعی مسائل کا حل فرمایا کرتے تھے، اور اس کے لئے مختلف جگہوں پر مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو بھیج کر مقدمات کے فیصل کے لئے مقرر بھی فرمایا؛ چنانچہ حضرت سیدنا معاذابن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بناکر بھیجا تو عتاب اسید رضی اللہ عنہ کو دربار رسالت سے مکہ مکرمہ کا کار قضاء انجام دینے کا حکم صادر ہوا، (دیکھئے: مسند احمد، ۱/۲۳۳، مصنف ابن ابی شیبہ، ۲/۱۱۴)۔

دیگر اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین دوسری جگہوں پر مقررومامورتھے؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عہد نبوت میں کار قضاء انجام دیتے تھے، سیدنا ابی بن کعب، زید بن ثابت اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین عہد نبوی کے قضاۃمیں شمارکئے جاتے تھے۔

عہد خلافت وملوکیت

عہد نبوی کے بعد خلافت کا دور شروع ہوتا ہے؛ چنانچہ تاریخ کی ورق گردانی ومطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہرخلیفہ خود قاضی بھی ہوتے اور فیصلہ خود بھی فرمایا کرتے، ساتھ ہی اپنی خلافت کے عرض وطول میں قضاۃ حضرات کی تقرری بھی فرماتے گویا یہ ایک مستقل نظام تھاقضاء کا؛ چنانچہ عہد صدیقی میں شعبہ قضاء کی ذمہ داری حضرت عمر رضی اللہ کے سپرد تھی، خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دور میں بعض مقدمات کی سماعت کے لئے حضرت یزید بن اخت النمر کو مقرر کیا تو دوسری طرف حضرت ابو شریح الحنفی کو بصرہ کااور کوفہ کے لئے قاضی شریح کو قاضی شریعت مقررکیا، اس عہد کے اجلہ قضاۃمیں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ کا نام سر فہرست آتا ہے۔ اسی طرح عہد عثمانی میں خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اجتماعی طور پر فیصلہ فرمایاکرتے، حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی منصب قضاء پرفائز تھے۔ سیدنا علی بھی خود قاضی تھے، آپ رضی اللہ عنہ کو اس میدان میں کافی تجربہ اور وسیع علم تھا ؛ اسی لئے آپ کو ’’اقضاہم‘‘   علی کے خطاب سے نوازا گیا، حضرت امیر معاویہ کے دور خلافت میں بھی قضاۃ مختلف علاقوں میں مقرر کئے گئے تھے، اس عہد کے مشہور قاضی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ جزاہم اللہ عنا خیرالجزاء۔

اس اہم فریضہ اور شعبہ دینی کا دائر ہ کار یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ خلافت کے بعد جب ملوکیت کا دور شروع ہوا تو اس وقت بھی وارثین انبیاء نے اس کی اہمیت وضرورت کی طرف وقت کے اعیان وسربراہان مملکت کو توجہ دلائی اور باضابطہ قضاء کا انتظام وانصرام ہوتارہا اور امت مسلمہ اپنے مسائل شرعی عدالت یعنی دار القضاء سے حل کراتی رہی اور اس کے فیصلہ پر گامزن رہی، مغلیہ دور میں بھی مسلمانوں کے عائلی قوانین کے مطابق ہی فیصلہ ہوا کرتے تھے، باضابطہ اس کے لئے شرعی عدالتیں قائم تھیں، جہاں سے مسلمانوں کے مسائل کا حل قرآن وحدیث وفقہ کی روشنی میں طے ہوتا۔ لیکن فسطائی طاقتوں اور مملکت برطانیہ کی بری نظر نے اس کے نظام کو یکسرختم کردیا۔ فالی اللہ المشتکی۔

دار القضاء کا قیام کیوں ضروری ہے؟

مذکورہ بالا سطور پڑھ لینے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ دار القضاء کا قیام محکم فریضہ ہے، اور ایسی سنت ہے جس کی ہمیشہ اتباع کی گئی ہے، چنانچہ آج اس کی اہمیت وضرورت امت مسلمہ کے لئے اتنی ہی ہے جتنی کہ قرن اول، عہد صحابہ، اور بعد کے دور میں تھی، اور اس کی اہمیت وضرورت انسانی زندگی کی بقاء وحیات کے ساتھ ملصق ہے، جب تک حیات انسانی اس کارگاہ عالم میں سانس لیتی رہے گی اس وقت تک اس کی ضرورت کا احساس ہم لوگوں کوشرعی عدالت قائم کرنے کی دعوت بہم پہونچاتا رہے گا، انسانی فطرت میں تنوع ہے، جس کی بنیاد پر ایک کی خواہش دوسرے انسان کی خواہش سے متصادم ہوتی ہے، مقابلہ کا مادہ اس وقت سر چڑھ کر بولتا ہے، اور اس کے نتیجہ میں ہر دو فریق اپنی پسند کی چیز حاصل کرنے میں ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے کے درپے ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے موقع سے شریعت حائل نہ ہوتو پھر ہر دو فریق خون کی ہولی کھیلنے سے گریز نہیں کریگا۔

دارالقضاء ہی پر منحصر ہے معاشرہ کا اعتدال

صالح معاشرہ کے لئے ضروی ہے کہ وہ معاشرہ ہرطرح کی گندگیوں سے پاک و صاف ہو، اس معاشرہ میں ظلم کوبڑھا وا نہ دیا جاتا ہو بلکہ ظلم کے خلاف بیک آواز مخالفت کی جاتی ہو، ظلم کے پنپنے سے پہلے ہی اس کی بیخ کنی کردی جاتی ہو، ظالم ظلم کو روا رکھنے کی اہلیت وہمت نہ جٹاپاتا ہو، مظلوم کی دادرسی کی جاتی ہو، اسے ہرممکن انصاف دلانے کی سعی وکوشش کی جاتی ہو، مظلوموں کو وہ معاشرہ اپنا گھر وکنبہ معلوم ہوتا ہواور اس احساس اجتماعیت سے اسے قوت وطاقت ملتی ہو، اور ظالموں کو وہ معاشرہ اجنبیت کا اور یکا اور تنہا ہونے کا احساس دلاتا ہو، اور اس احساس اجنبیت سے اسے کمزور وناتواں کا احساس ہوتا ہو، ہر صاحب حق اپنا حق حاصل کرنے میں مکمل بااختیار ہو، حق کے ضائع وتلف وغصب ہونے عدم حصول کا احساس اس کے معاشرہ کے ہر فرد کے ذہن ودماغ سے کھرچ دیا گیا ہو، ایسا معاشرہ حقیقت کا آئینہ دار معاشرہ ہوگا، اور قرن اول عہد صحابہ کا معاشرہ ہمیں مل جائے گا، ہر فرد محسوس کرے گا کہ وہ قرن اول کی زندگی جی رہا ہے، اور یہی شریعت میں مطلوب ومقصود مومن ہے، معاشرہ کا یہ تخیل اس وقت حقیقت اور وجود کا روپ لے گا، جبکہ ہمارے معاشرہ میں عدل وانصاف کا دور دوراں ہوگا، اور عد ل کے قائم کرنے کے لئے محکمہ شرعیہ، شرعی عدالت یا دار القضاء کا قیام ضروری ہے، بغیر اس کے مذکورہ بالا معاشر ہ کا وجود ممکن نہیں، معاشرہ بے راہروی کا شکار ہوگا تو راہ راست پر دار القضاء ہی لائے گا۔ دار القضاء کی وجہ سے معاشرہ اپنا اعتدال بنائے رکھے گا۔

لہذاارباب عقل ودانش کا کام یہ ہے کہ وہ دار القضاء کا قیام ہندوستان کے علاقے علاقے اور اس کے کونے کونے میں کرے، اور عوام الناس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے سارے مسائل کے حل کے لئے دار القضاء سے رجوع ہوں اور قرآن و حدیث کے مطابق اپنے مسائل حل کریں۔

تبصرے بند ہیں۔