دار پر حد سے سِوا یار آئی 

نادیہ عنبر لودھی

دار پر حد سے سِوا یار آئی

اس بشر کو تو وفا یاد آئی

گُل کی خوشبو تھی جہاں پر ناپید

اُس گلی باد ِ صبا یاد آئی

بجھ گئی شب  کو اگر خواہش ِدل

  چارہ گر تجھ کو دوا یاد آئی

چلتے چلتے جو جلاتے گئے دیپ

ظلمتِ شب کی ادا یاد آئی

جیتے جیتے رہے عنبر مدہوش

مرنے والے  کو قضا یاد آئی

2 تبصرے
  1. محمد قمرانجم قمر فیضی قادری کہتے ہیں

    واہ،، بہت ہی لاجواب اور بہترین غزل ہے محترمہ نادیہ عنبر لودھی صاحبہ کی،
    آپ نے اپنی شاعری میں یارانہ ،دوستی،،وفا پرستی کی بہترین تعریف
    بیان کی ہے،
    ★بجھ گئی شب کو اگر،خواہش دل*چارہ گر تجھ کو دویاد آئی★

    کیا کہنے،، ایسی پیاری اور بہترین غزل پہلی بار پڑھنے کو ملی،، آپ کی شاعری میں ایک الگ طرح کی مقناطیسی کشش ہے جو قاری کو بار بار پڑھنے پر
    مجبو، ر کردیتی ہے

  2. محمد قمرانجم قمر فیضی قادری کہتے ہیں

    واہ،، بہت ہی لاجواب اور بہترین غزل ہے محترمہ نادیہ عنبر لودھی صاحبہ کی،
    آپ نے اپنی شاعری میں یارانہ ،دوستی،،وفا پرستی کی بہترین تعریف
    بیان کی ہے،
    ★بجھ گئی شب کو اگر،خواہش دل*چارہ گر تجھ کو دوایاد آئی★

    کیا کہنے،، ایسی پیاری اور بہترین غزل پہلی بار پڑھنے کو ملی،، آپ کی شاعری میں ایک الگ طرح کی مقناطیسی کشش ہے جو قاری کو بار بار پڑھنے پر
    مجبو، ر کردیتی ہے

تبصرے بند ہیں۔