دامن دراز عشق میں ہارے بہت ملے
الف اطہر نعیمی
دامن دراز عشق میں ہارے بہت ملے
ہم کو گمان کم کا تھا بارے بہت ملے
…
خود غرضیوں کے ساتھ سہارے بہت ملے
ہم کو برائے نام ہمارے بہت ملے
…
افسوس! ہو سکا نہ کوئی راہبر مرا
ویسے تو آسمان پہ تارے بہت ملے
…
وہ اور ہوں گے جن کا تعلق خوشی سے تھا
ہم کو غمِ حیات کے مارے بہت ملے
…
ایذا پسند دل تھا سو ایذا طلب رہا
ورنہ مسرتوں کے اشارے بہت ملے
…
پھر آگیا یقین فریبِ نگاہ پر
پہلے محبتوں کے نظارے بہت ملے
…
بزمِ جنوں میں جتنے تھے سب بے نیاز تھے
بزمِ خرد میں ہاتھ پسارے بہت ملے
…
اطہر ہماری راہ تھی طغیانیوں کے ساتھ
بحرِ وفا کے ہم کو کنارے بہت ملے
تبصرے بند ہیں۔