دلربا سامنے آؤ تو کوئی بات بنے
محمد طاھر زلفی
(پیپل سانوی مرادآباد)
دلربا سامنے آؤ تو کوئی بات بنے
رخ سے پر دے کو اٹھاؤ تو کوئی بات بنے
…
زلف شانے پہ سجاؤ تو کوئی بات بنے
چاند سے ابر ہٹاؤ تو کوئی بات بنے
…
دل سے نفرت کو مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کا دیپ جلاؤ تو کوئی بات بنے
…
مجھکو اتنانہ ستاؤ تو کوئی بات بنے
اپنے سینے سے لگاؤ تو کوئی بات بنے
…
مرے خوابوں میں تو ہر روز چلے آتے ہو
میرے پہلو میں بھی آو تو کوئی بات بنے
…
موج طوفاں میں پھنسی جاتی ہےکشتی مری
آکے ساحل سے لگاؤ تو کوئی بات بنے
…
بوڑھے ماں باپ کی خدمت کاسھارالیکر
راہ جنت کی بناؤ تو کوئی بات بنے
…
بس کتابوں میں تواپنا مجھے لکھ لیتے ہو
یہ زمانہ کو بتاؤ تو کوئی بات بنے
…
منتظر ہوں تری باہوں میں گزاروں راتیں
پھر حسیں گیت سناؤ تو کوئی بات بنے
…
نیند آنکھوں سے چرانا عجب ہے لیکن
دل پہ خنجر کو چلاؤ تو کوئی بات بنے
…
جام و مینا بھی ہیں حاصل مجھے زلفی لیکن
جام نظروں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے
تبصرے بند ہیں۔